پریس ریلیز
خانہ بدوش مزدوروں کے حقوق کی ضمانت دی جائے: ایچ آر سی پی
جنوری 2022۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی منعقد کردہ آن لائن کانفرنس کے دوران، تمام مقررین کی متفقہ رائے تھی کہ پس ماندہ گروپس جیسے کہ غیررسمی موسمی مزدوروں اور خانہ بدوش برادریوں کو شہریتی دستاویزات تک رسائی دینے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔ ایچ آر سی پی کو معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ زیادہ تر صحت کی سہولیات، اپنے بچوں کی تعلیم، سماجی تحفظ کی اسکیموں اور کوویڈ 19 ویکسینیشن تک رسائی سے محروم ہیں جبکہ کئی شہریتی دستاویزات کے فوائد سے مکمل طور پر بےخبر ہیں۔
چیئرمین نادرا محمد طارق ملک کا کہنا تھا کہ ریاست اور اس کے شہریوں کے درمیان سماجی معاہدہ صرف اس وقت ممکن ہے جب تمام شہریوں کے پاس قانونی شناخت ہو گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ ‘اگر ریاست آپ کا شمار نہیں کر سکتی تو پھر آپ ریاست کا لحاظ بھی نہیں کر سکتے۔’ انہوں نے کہا کہ نادرا نے اس مقصد کے لیے ‘شمولیتی اندراج مہم’ شروع کی ہے، اور مزید کہا کہ موسمی مزدوروں جیسے پس ماندہ طبقوں جن کے پاس سی این آئی سی کے لیے درکار دستاویزات نہیں ہوتیں انہیں شہریت کی متبادل دستاویزات جاری کی جائيں۔
ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن حنا جیلانی نے کہا کہ اگرچہ سی این آئی سی تک رسائی ‘سلامتی کی وجوہ’ کے سبب جانچ پڑتال کے تابع ہو سکتی ہے، مگر ریاست پر ‘سلامتی کا خبط’ طاری ہو گیا ہے جس کے باعث لوگوں کے شہریت کے حق کی پامالی ہو رہی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ نادرا کو اپنی پہنچ کا دائرہ بڑھانے کے لیے سماج کی نچلی سطح کی تنظیموں کے ساتھ شراکت پیدا کرنی ہو گی جبکہ حکومت کو غیرسرکاری تنظیموں کو نشانہ بنانے کے بجائے اُن کے کام کی قدر کرنا ہو گی۔
سابق سینیٹر اور ایچ آر سی پی کے کونسل رکن فرحت اللہ بابر نے تجویز دی کہ غیررسمی مزدوروں اور بےوطن افراد کی حیثیت کے معاملے کے حل کے لیے سینٹ کی کُل اراکین کی کمیٹی تشکیل دی جائے، اور مزید کہا کہ پاکستان میں مقیم تمام افراد کو کچھ دستاویزات ضرور فراہم کی جائیں تاکہ اُنہیں کم از کم کچھ فوائد، بنیادی طور پر صحت کی نگہداشت تک رسائی حاصل ہو جائے۔
رکن پنجاب اسمبلی بشرا بٹ، رکن کے پی اسمبلی افتخار ولی خان، اور رکن سندھ اسمبلی رانا انصر کی متفقہ رائے تھی کہ لوگوں کو شہریتی دستاویزات تک رسائی دینے کی غرض سے سفارشات مرتب کرنے کے لیے تمام صوبوں کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی ریحانہ لغاری نے نشاندہی کی کہ طریقہ کار خاص طور پر یتیموں، شادی کے بغیر جنم لینے والے بچوں، اور محدود نقل و حرکت رکھنے والی عورتوں کے لیے بہت مشکل ہے۔
امکان ویلفیئر آرگنائزیش کی ڈائریکٹر طاہرہ حسن نے نشاندہی کی کہ صفِ اوّل پر کام کرنے والے مزدور نادرا کی پالیسی میں ہونے والے ردّوبدل سے اکثر بےخبر تھے، مثال کے طور پر جب دستاویز سازی کی شرائط کو سادہ کیا گیا تھا۔ سماجی کارکن عثمان غنی نے کہا کہ لسانی اقلیتوں مثال کے طور پر کراچی میں بنگالی برادری کے لیے اگر سی این آئی سی لینا ممکن ہو بھی تو اُنہیں یہ حاصل کرنے میں دو برس لگ جاتے ہیں۔ سینیئر صحافی طلعت حسین نے کہا کہ جو لوگ ‘متعلقہ’ نہیں سمجھے جاتے وہ شہریت تک رسائی کی بحث سے خارج کر دیے جاتے ہیں۔