‘خوف اور سنسرشپ کا خاتمہ ضروری ہے’ :ایچ آر سی پی کی جانب سے صحافت کی آزادی پر پالیسی بیان کا اجراء
اسلام آباد، یکم جون۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے خوف، تشدد اور سنسرشپ کی بڑھتی ہوئی فضا جس نے ملک میں اظہارِ رائے کی آزادی کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، پر شدید تشویش ظاہر کی ہے ۔ رپورٹر اسد علی طور پر مبینہ طور پر اس کے کام کی وجہ سے نامعلوم افراد کا حملہ، اور سول سوسائٹی کے ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کے بعد اینکر حامد میر کے پروگرام پر پابندی ملک میں غیراعلانیہ سنسرشپ اور پرتشدد انتقام کی سوچی سمجھی پالیسی کی عکاسی کرتی ہے۔
ایچ آر سی پی کی جانب سے پاکستان میں صحافت کی آزادی پر جاری ہونے والے پالیسی بیان، نیز پالیسی بیان کے لیے ہونے والی گفتگو میں حصہ لینے والے صحافیوں کی متفقہ رائے کے مطابق، معلومات پر ریاستی و غیرریاستی عناصر کی مضبوط گرفت کی بدولت اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ ہر وہ فرد سزا پائے گا جس نے مخصوص من پسند بیانیے کو چیلنج کرنے کی جسارت کی۔
یہ دستایز الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے قانون (پیکا) 2016 کے شدید خلاف ہے جس کا ناجائز استعمال صحافیوں کو زبان بندی پر محبور کر رہا ہے، اور مطالبہ کرتی ہے کہ پیمرا حکومت کا ذيلی ادارہ بننے کی بجائے ایک خودمختار ادارے کے طور پر کام کرے۔ یہ یقینی بنانا بھی انتہائی ضروری ہے کہ ذرائع ابلاغ کے ساتھ وابستہ افراد کو ان کے مالکان اور ریاستی اداروں سے تحفظ فراہم کیا جائے، خاص طور پر بلوچستان اور کے پی میں جہاں صحافی حقائق کی چھان بین کرنے اور انہیں سامنے لانے میں بہت زیادہ خوف محسوس کرتے ہیں۔ جہاں صحافی اپنے فریضے کی انجام دہی کے دوران قتل کر دیے جائیں، وہاں ایف آئی آرز درج ہونی چاہییں، مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور متاثرین کے اہلِ خانہ کو معاوضہ دیا جائے۔
ایسے شعبے جس میں خطرات کے امکانات کافی زيادہ ہوتے ہیں، میں حفاظتی انتظامات کا نہ ہونا بھی ناقابل قبول امر ہے۔ تصادم زدہ علاقوں جیسے کہ بلوچستان اور کے پی کے مختلف حصوں سے رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو تحفظ، ابتدائی طبی امداد، جہاں ضروری ہو گولیوں سے محفوظ رکھنے والی جیکٹیں فراہم کی جائیں اور ان کی زندگی کا بیمہ کروایا جائے۔
اس کے علاوہ، ذرائع ابلاغ کے مالکان اور انتظامیہ کو یہ یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا کہ یہ شعبہ نہ صرف ہراسانی اور حملوں سے محفوظ و آزاد ہو سکے بلکہ روزگار کا منصفانہ اور قابلِ بھروسہ ذریعہ بھی بن سکے۔ سب سے زيادہ ضروری یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ سے وابستہ تمام افراد کو بروقت تنخواہیں ادا کی جائیں اور تنخواہوں میں کٹوتیاں واپس لی جائیں۔ اسلام آباد میں واقع میڈيا ٹربیونل کو ضلعی سطح تک وسعت دی جائے تاکہ تنخواہوں اور دیگر واجبات کی ادائیگی یقینی ہو سکے۔ حکومت کو ان سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا سراغ لگانے میں انتہائی سرگرمی کا مظاہرہ کرنا ہو گا جو صحافیوں، خاص طور پر خواتین صحافیوں کو ہراساں کرنے اور ڈرانے دھمکانے میں ملوث ہیں۔
صحافت جرم نہیں ہے۔ اختلافِ رائے جرم نہیں ہے۔ جیسا کہ ایچ آر سی پی کی چئیرپرسن حنا جیلانی نے آج منعقد ہونے والی ایک پریس ریلیز کے موقع پر کہا کہ ،’اگر ریاست اور زیادہ مضبوط بننا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ تحفظ دینے کی اپنی استعداد مضبوط کرے نہ کہ کنٹرول کرنے کی استعداد۔’
چئیرپرسن حنا جیلانی کے ایماء پر
Policy brief in English: http://oldsite.hrcp-web.org/
Policy brief in Urdu: http://oldsite.hrcp-web.org/