پریس ریلیز
لاہور
26-اکتوبر، 2017
لاہور
26-اکتوبر، 2017
عالمی وفاق برائے انسانی حقوق (ایف آئی ڈی ایچ
اور اس کی رکن تنظیم
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی مشترکہ پریس ریلیز
اور اس کی رکن تنظیم
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی مشترکہ پریس ریلیز
دو سو پچاسی ترک اساتذہ اور ان کے خاندان جبری وطن واپسی اور ایذارسانی کے خطرے سے دوچار ہیں
لاہور، پیرس، 26 اکتوبر،2017 ؛ عالمی وفاق برائے انسانی حقوق(ایف آئی ڈی ایچ) اور اس کی رکن تنظیم پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ 285 ترک شہریوں کو جبری وطن واپسی، غیر قانونی حراست اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں سے تحفظ فراہم کیا جائے۔
ایف آئی ڈی ایچ کے صدر دمیترس کرسٹو پالس نے کہا ’’پاکستانی حکومت نے ایک ترک خاندان کو ملک بدر کرکے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ پاکستانی حکومت دیگر 285 افراد کے تحفظ کو یقینی بنائے جو ترکی کے حوالے کیے جانے کے خطرے سے دوچار ہیں اور حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی عالمی ذمہ داریوں سے انحراف کا سلسلہ بھی ترک کرے۔
پاک۔ ترک سکولوں کے ساتھ وابستہ 285 ترک شہری اور ان کے خاندان نومبر 2016 سے جبری وطن واپسی کے خطرے سے دوچار ہیں۔285 افراد کواب پاکستانی پولیس اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے چھاپوں کا خوف بھی لاحق ہے۔ اگر انہیں ترکی بھیجا جاتا ہے تو وہاں پہنچتے ہی انہیں غیر قانونی گرفتاری، عدالتی ایذا دہی اور گرفتاری کا نشانہ بنائے جانے کا قوی امکان ہے۔ انہیں حراست کے دوران ایذا رسانی اور بدسلوکی کی دیگر شکلوں کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔اُنہیں اس قسم کے سلوک کا سامنا اس لیے کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ جولائی 2016 میں ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی کی حکومت ترکی میں اساتذہ، صحافیوں، ماہرین تعلیم اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ انتہائی سخت کارروائی کر رہی ہے۔ ’ترکی ملیشیا‘ میانمر اور سعودی عرب سے پاک۔ ترک سکولوں کے ساتھ وابستہ اساتذہ کی جبری وطن واپسی کروانے میں پہلے ہی کامیاب ہو چکا ہے۔
27 ستمبر 2017 کو پاکستان میں پاک ۔ترک سکولوں کے سابق سربراہ مسعود کچماز کو اُن کے بیوی اور دو بچوں سمیت اغوا کیا گیا۔ 14 اکتوبر 2017 کو کچماز خاندان کو ترک پولیس اہلکاروں کے حوالے کیا گیا اور اُنہیں حکومت کے بھیجے گئے ایک جہاز میں سوار کر کے زبردستی وطن واپس کر دیا گیا۔ یہ جبری وطن واپسی وزیر خارجہ پاکستان کے دورہ امریکہ کے دوران اکتوبر 2017 کے اوائل میں دیے گئے بیانات کے باوجود عمل میں لائی گئی جن میں اُنہوں نے کہا تھا کہ ترک اساتذہ اور اُن کے خاندانوں کو پاکستانی عدالتوں اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی دی گئی مہلت کے خاتمے کے بعد ہی ملک بدر کیا جائے گا۔
پاکستان حکومت نے ترک اساتذہ کو 20 نومبر 2016 تک ملک چھوڑنے کا جو حکم جاری کیا تھا اسے کئی پاکستانی عدالتوں نے معطل کر دیا تھا۔ مزید برآں یو این ایچ سی آر کے جاری کردہ ’پناہ گزین سرٹیفکیٹ‘ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ترک شہریوں کو کسی ایسے ملک نہ بھیجا جائے جہاں اُنہیں خدشہ ہے کہ اُن کی زندگی اور آزادی خطرے سے دوچار ہو گی۔اگرچہ ان سرٹیفکیٹس میں 11 اکتوبر،2018 تک توسیع دے دی گئی ہے مگر پھر بھی درجنوں افراد کو اپنی حیثیت سے متعلق کئی مشکلات درپیش ہیں۔ 285 افراد کے پاس نوزائیدہ بچے ہیں جو پاسپورٹس سے محروم ہیں، دیگر کے پاس زائد المیعاد پاسپورٹس ہیں اور ایک خاندان کے افراد کی ترک شہریت ختم ہوچکی ہے۔
کچماز خاندان کی جبری وطن واپسی اور باقی ماندہ 285 ترک شہریوں کو درپیش ملک بدری کا خطرہ پاکستان کی عالمی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی عکاسی کرتا ہے۔ خاص طور پر، یہ ایذا رسانی اور دیگر ظالمانہ‘ غیر انسانی یا تضحیک آمیز سلوک یا سزا کے عالمی میثاق کی دفعہ 3 کی خلاف ورزی ہے جس کے مطابق ’’کوئی بھی فریق ریاستی کسی فرد کو کسی ایسی ریاست کے
ایف آئی ڈی ایچ کے صدر دمیترس کرسٹو پالس نے کہا ’’پاکستانی حکومت نے ایک ترک خاندان کو ملک بدر کرکے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ پاکستانی حکومت دیگر 285 افراد کے تحفظ کو یقینی بنائے جو ترکی کے حوالے کیے جانے کے خطرے سے دوچار ہیں اور حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی عالمی ذمہ داریوں سے انحراف کا سلسلہ بھی ترک کرے۔
پاک۔ ترک سکولوں کے ساتھ وابستہ 285 ترک شہری اور ان کے خاندان نومبر 2016 سے جبری وطن واپسی کے خطرے سے دوچار ہیں۔285 افراد کواب پاکستانی پولیس اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے چھاپوں کا خوف بھی لاحق ہے۔ اگر انہیں ترکی بھیجا جاتا ہے تو وہاں پہنچتے ہی انہیں غیر قانونی گرفتاری، عدالتی ایذا دہی اور گرفتاری کا نشانہ بنائے جانے کا قوی امکان ہے۔ انہیں حراست کے دوران ایذا رسانی اور بدسلوکی کی دیگر شکلوں کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔اُنہیں اس قسم کے سلوک کا سامنا اس لیے کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ جولائی 2016 میں ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی کی حکومت ترکی میں اساتذہ، صحافیوں، ماہرین تعلیم اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ انتہائی سخت کارروائی کر رہی ہے۔ ’ترکی ملیشیا‘ میانمر اور سعودی عرب سے پاک۔ ترک سکولوں کے ساتھ وابستہ اساتذہ کی جبری وطن واپسی کروانے میں پہلے ہی کامیاب ہو چکا ہے۔
27 ستمبر 2017 کو پاکستان میں پاک ۔ترک سکولوں کے سابق سربراہ مسعود کچماز کو اُن کے بیوی اور دو بچوں سمیت اغوا کیا گیا۔ 14 اکتوبر 2017 کو کچماز خاندان کو ترک پولیس اہلکاروں کے حوالے کیا گیا اور اُنہیں حکومت کے بھیجے گئے ایک جہاز میں سوار کر کے زبردستی وطن واپس کر دیا گیا۔ یہ جبری وطن واپسی وزیر خارجہ پاکستان کے دورہ امریکہ کے دوران اکتوبر 2017 کے اوائل میں دیے گئے بیانات کے باوجود عمل میں لائی گئی جن میں اُنہوں نے کہا تھا کہ ترک اساتذہ اور اُن کے خاندانوں کو پاکستانی عدالتوں اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی دی گئی مہلت کے خاتمے کے بعد ہی ملک بدر کیا جائے گا۔
پاکستان حکومت نے ترک اساتذہ کو 20 نومبر 2016 تک ملک چھوڑنے کا جو حکم جاری کیا تھا اسے کئی پاکستانی عدالتوں نے معطل کر دیا تھا۔ مزید برآں یو این ایچ سی آر کے جاری کردہ ’پناہ گزین سرٹیفکیٹ‘ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ترک شہریوں کو کسی ایسے ملک نہ بھیجا جائے جہاں اُنہیں خدشہ ہے کہ اُن کی زندگی اور آزادی خطرے سے دوچار ہو گی۔اگرچہ ان سرٹیفکیٹس میں 11 اکتوبر،2018 تک توسیع دے دی گئی ہے مگر پھر بھی درجنوں افراد کو اپنی حیثیت سے متعلق کئی مشکلات درپیش ہیں۔ 285 افراد کے پاس نوزائیدہ بچے ہیں جو پاسپورٹس سے محروم ہیں، دیگر کے پاس زائد المیعاد پاسپورٹس ہیں اور ایک خاندان کے افراد کی ترک شہریت ختم ہوچکی ہے۔
کچماز خاندان کی جبری وطن واپسی اور باقی ماندہ 285 ترک شہریوں کو درپیش ملک بدری کا خطرہ پاکستان کی عالمی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی عکاسی کرتا ہے۔ خاص طور پر، یہ ایذا رسانی اور دیگر ظالمانہ‘ غیر انسانی یا تضحیک آمیز سلوک یا سزا کے عالمی میثاق کی دفعہ 3 کی خلاف ورزی ہے جس کے مطابق ’’کوئی بھی فریق ریاستی کسی فرد کو کسی ایسی ریاست کے
کچماز خاندان کی جبری وطن واپسی اور باقی ماندہ 285 ترک شہریوں کو درپیش ملک بدری کا خطرہ پاکستان کی عالمی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی عکاسی کرتا ہے۔ خاص طور پر، یہ ایذا رسانی اور دیگر ظالمانہ‘ غیر انسانی یا تضحیک آمیز سلوک یا سزا کے عالمی میثاق کی دفعہ 3 کی خلاف ورزی ہے جس کے مطابق ’’کوئی بھی فریق ریاستی کسی فرد کو کسی ایسی ریاست کے حوالے نہیں کرے گی جہاں اس بات کا قوی امکان ہو کہ اُسے ایذا رسانی کا نشانہ بنایا جائے گا۔‘‘ مسٹر کچماز کی دو بیٹیوں کا اغوا بچوں کے حقوق کے میثاق کی دفعہ 22 اور 37 کی پامالی بھی ہے جس کا پاکستان فریق ہے۔ (1)
’’ایچ آر سی پی کے چیئرپرسن مہدی حسن نے کہا ’’ترک خاندانوں کو زبردستی ترکی واپس بھیج کر پاکستان نے اپنے عالمی فرائض سے روگردانی کی ہے اور حکومت کے اس اقدام کا مقصد ترک حکومت کو خوش کرنا تھا۔ پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ وہ 285 ترک شہریوں کے حوالے سے اپنے اس نقطہ نظر پر نظرثانی کرے اور اُن کے انسانی حقوق کے تحفظ کو سب سے بڑی ترجیح دینی چاہیے۔‘‘
ایف آئی ڈی ایچ اور ایچ آر سی پی کچماز خاندان کی جبری وطن واپسی کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور پاکستانی حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں موجود 285 ترک شہریوں کے حقوق کا احترام کیا جائے، خاص طور پر اُن کے اس عالمی حق کا کہ اُنہیں اُس ملک نہ بھیجا جائے جہاں اُن کی زندگی یا آزادی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ دونوں تنظیموں نے پاکستانی حکام سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ یو این ایچ سی آر کی طرف سے جاری کردہ پناہ گزین سرٹیفکیٹ کا احترام کیا جائے جس کی مدت اکتوبر 2018 کو ختم ہو گی اور ملکی عدالتوں کے احکامات کی پاسداری کی جائے۔
3333
Press contacts
Mr. Andrea Giorgetta (English) – Tel: +66886117722 (Bangkok)
Ms. Audrey Couprie (French, English) – Tel: +33648059157 (Paris)
’’ایچ آر سی پی کے چیئرپرسن مہدی حسن نے کہا ’’ترک خاندانوں کو زبردستی ترکی واپس بھیج کر پاکستان نے اپنے عالمی فرائض سے روگردانی کی ہے اور حکومت کے اس اقدام کا مقصد ترک حکومت کو خوش کرنا تھا۔ پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ وہ 285 ترک شہریوں کے حوالے سے اپنے اس نقطہ نظر پر نظرثانی کرے اور اُن کے انسانی حقوق کے تحفظ کو سب سے بڑی ترجیح دینی چاہیے۔‘‘
ایف آئی ڈی ایچ اور ایچ آر سی پی کچماز خاندان کی جبری وطن واپسی کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور پاکستانی حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں موجود 285 ترک شہریوں کے حقوق کا احترام کیا جائے، خاص طور پر اُن کے اس عالمی حق کا کہ اُنہیں اُس ملک نہ بھیجا جائے جہاں اُن کی زندگی یا آزادی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ دونوں تنظیموں نے پاکستانی حکام سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ یو این ایچ سی آر کی طرف سے جاری کردہ پناہ گزین سرٹیفکیٹ کا احترام کیا جائے جس کی مدت اکتوبر 2018 کو ختم ہو گی اور ملکی عدالتوں کے احکامات کی پاسداری کی جائے۔
3333
Press contacts
Mr. Andrea Giorgetta (English) – Tel: +66886117722 (Bangkok)
Ms. Audrey Couprie (French, English) – Tel: +33648059157 (Paris)
دفعہ۔22 : فریق ریاستیں اس امر کو یقینی بنانے کے لئے مناسب اقدامات کریں گی کہ جو بچہ درجہ مہاجرت کا متلاشی ہو یا جسے مروج بین الاقوامی یا ملکی قوانین اور ضوابط کے تحت مہاجر قرار دیا گیا ہو، خواہ وہ تنہا ہو یا اپنے والدین کے ساتھ یا کسی اور فرد کے ساتھ، اسے مناسب تحفظ اور انسانی بنیادوں پر امداد مہیا کی جائے تاکہ وہ ان حقوق سے استفادہ کرسکے جو دوسرے انسانی حقوق کی دستاویزات میں اور اس عہد نامے میں طے کئے گئے ہیں اور متعلقہ ریاستیں جن کی فریق ہیں۔ اس مقصد کے لئے فریق ریاستیں، جیسا مناسب سمجھیں گی اقوام متحدہ اور دوسری بین الحکومتی تنظیموں کی کوششوں میں تعاون کریں گی یا اقوام متحدہ سے تعاون کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ جو بچے کے خاندان یا والدین یا خاندان کے دیگر افراد کو ا کٹھا کرنے کے لئے کوشش کررہی ہیں۔ ایسی صورت میں جہاں والدین یا خاندان کے دیگر افراد کا سراغ لگانا ممکن نہ ہو، بچے کو وہی تحفظ فراہم کیا جائے گا جو کسی دوسرے بچے کو اس عہد نامے کے مطابق مہیا کیا جاتا ہے جو عارضی یا مستقل طور پر کسی بھی وجہ سے اپنے خاندانی ماحول سے الگ کر دیا گیا ہو۔
دفعہ37(ب) :کسی بچے / بچی کو غیر قانونی یا بلا جواز طور پر آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ بچے کی گرفتاری، حراست یا سزا، قانون کے مطابق ہوگی اور اسے آخری چارہ کار کے طور پر کم سے کم وقت کے لئے اختیار کیا جائے گا۔
دفعہ37(ب) :کسی بچے / بچی کو غیر قانونی یا بلا جواز طور پر آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ بچے کی گرفتاری، حراست یا سزا، قانون کے مطابق ہوگی اور اسے آخری چارہ کار کے طور پر کم سے کم وقت کے لئے اختیار کیا جائے گا۔