پریس ریلیز

روزافزوں بڑھتی مہنگائی اور انتہاپسندی باعثِ تشویش ہے

لاہور، 12 نومبر 2021۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے کہا ہے کہ ملک میں انسانی حقوق کی مخدوش صورت حال تشویشناک صورت اختیار کر گئی ہے۔ ایسے حالات میں کہ جہاں لوگ آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی اور مذہبی انتہاپسندی کے ظہور میں پھنسے ہوئے ہیں، اسٹیبلشمنٹ اور حمکران جماعت کا پارلیمان کو دیوار سے لگانا ملک کی جمہوریت کی بقا کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ سیاسی انجنيئرنگ کی لگاتار کوششیں اور لسانی اختلافات کا استحصال پاکستان کی کمزور جمہوریت کو کئی دہائیاں پيچھے دھکیل سکتی ہے۔ ایچ آر سی پی نے ایسی ترامیم کی بھی پرزور مخالفت کی ہے جن کا مقصد مقامی حکومتوں کے اختیار کو کم کرنا ہے۔

سیاسی حزبِ اختلاف کا فریضہ ہے کہ وہ مہنگائی کے بحران کا حل ڈھونڈیں۔ ایچ آر سی پی حکومت پر بھی زور دیتا ہے کہ وہ ترقی کے نیو لبرل نمونوں پر نظرثانی کرے جو اس نے اختیار کر رکھے ہیں۔ یہ اقدامات نہ تو غیرب پرور ہیں نہ ہی انسانی حقوق کے نقطہ نظر سے بہتر ہیں۔ اگر ریاست اپنے شہریوں کو روٹی اور مکان فراہم نہیں کر سکتی تو اُن سے اُن کا کچھ بچا کھچا چھیننے کا حق بھی نہیں رکھتی۔

حکومت کا تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات ایسا اقدام ہے جس کی ضمیر اجازت نہیں دے سکتا۔ انتہائی دائیں بازو کے شدت پسند گروپ جو اندازاُ پاکستانی اموات کا ذمہ دار ہے، کے سامنے ریاست کا یوں گھٹنے ٹیکنا ترقی پسند، سیکولر قوتوں کے لیے بہت بڑی تنبیہ ہے۔

ایچ آر سی پی کو اس امر پر بھی تشویش ہے کہ حکومت تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے حامیوں کے تشدد کے دوران کم از کم سات پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد بھی حکومت اپنی عملداری قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ٹی ایل پی کے ساتھ حکومتی مذاکرات سے دیگر کالعدم تنظیموں کو شہہ ملے گی جو عام انسانوں کو دستیاب تھوڑی بہت شہری آزادی پر قابض ہونے میں ذرہ بھر تامّل نہیں کریں گی۔

عورتوں، بچوں اور خواجہ سراء افراد کے خلاف بڑھتے تشدد کے تناظر میں، ایچ آر سی پی نے بچوں کے تحفظ کے اداروں، عورتوں کے دارالامانوں، اور صنفی تشدد کی روک تھام کی عدالتوں کو مضبوط کرنے اور خواتین پولیس افسران کو تمام ضروری وسائل سے لیس کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایچ آر سی پی نے پاکستان میں افغان مہاجرین کی صورت حال پر بھی نظر رکھی ہوئی ہے اور حکومت سے پُرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ مہاجرین کے حوالے سے ایسی مربوط پالیسی نافذ کرے جو اُن کی سلامتی اور نقل و حرکت کی آزادی کے حق کی ضمانت دے۔

ایچ آر سی پی عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتا ہے جس میں خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں ایک ہندو مندر پر حملہ کرنے والے شرپسندوں کو سزا سنائی گئی ہے۔ اس سے ایک اہم نظیر قائم ہوئی ہے اور یہ واضح پیغام ملنا چاہیے کہ ریاست مذہبی اقلیتوں کی جائے عبادات پر حملے برداشت نہیں کرے گی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ واحد اقدام مذہب یا عقیدے کی آزادی کو محفوظ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ ہم، 2014 کے عدالتِ عظمیٰ کے تصدق جیلانی فیصلے کے اطلاق، اقلیتوں کے لیے ایک خودمختار قانونی قومی کمیشن کے قیام، مذہب کی جبری گمشدگیوں کے خلاف قانون سازی کرنے، اور مذہب کی تضحیک پر سینٹ کی 2018 کی رپورٹ کی سفارشات پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ دہراتے ہیں۔

اگرچہ ایچ آر سی پی جبری گمشدگیوں کے رجحان کے خلاف فوری قانون سازی کا حامی ہے، مگر اِسے فکر لاحق ہے کہ مسودہ قانون میں اُن ریاستی ایجنسیوں کے لیے خوف کا سبب بننے یا ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے یا ان کے محاسبے کا کوئی بندوبست موجود نہیں جو اِس روش کو لوگوں پر دھونس دھمکی جمانے کا ذریعہ سمجھتی ہیں۔

ہم پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈيا پروفیشنلز ایکٹ کی منظوری کو خوش آئند قرار دیتے ہیں، مگر قواعد و ضوابط جو ابھی جاری ہونا باقی ہیں، اظہار اور رائے کی آزادی کے حق پر اثرانداز نہیں ہونے چاہییں، نہ ہی ان قواعد کے اجراء میں تاخیر ہونی چاہیے۔ البتہ یہ اتنہائی عجیب بات ہے کہ یہ قانون پرووینشن آف الیکٹرانک ایکٹ 2016 اور مجوزہ، خوفناک، پاکستان میڈيا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آرڈینینس سے غیرہم آہنگ ہے۔

 ایچ آر سی پی نے موجودہ فضا میں انتہائی مناسب اقدام اٹھاتے ہوئے 2021 میں دلیرانہ صحافت کے لیے نثار عثمانی ایوارڈ 2021 کے لیے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کا چناؤ کیا ہے جو جابر نظام کی مسلط کردہ سنسرشپ کی مزاحمت کے لیے ایک ناگزیر قوت ثابت ہوئي ہے۔

حنا جیلانی

چیئرپرسن