سزائے موت پر پابندی بحال کی جائے
لاہور، 10 اکتوبر 2021۔ سزائے موت کے خلاف عالمی دن کے موقع پر، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) ریاست سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ سزائے موت پر پابندی بحال کرے اور فوجداری تحقیقات کے نظام میں بہتری پر توجہ مرکوز کرے اور اس مقصد کے لیے جیل میں وسیع تر اصلاحات متعارف کروائے تاکہ وہاں بند قیدیوں جن کی نگہداشت ریاست کی ذمہ داری ہے، کے بنیادی حقوق محفوظ ہو سکیں۔
ایچ آر سی پی اِس تاریخی دن کے موقع پر سزائے موت پر اپنا مؤقف دہرانا چاہتا ہے: ریاست کا فریضہ زندگی کو محفوظ کرنا ہے، اسے ختم کرنا نہیں، اور یہ کہ عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو اِس امر کے سائنس شواہد موجود نہیں کہ سزائے موت جرائم میں کمی کا سبب بنتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ غیرتسلی بخش عدالتی نظام میں سزائے موت کے اطلاق کی اجازت نہيں دی جانی چاہیے۔ نہ صرف غریب اور وسائل سے محروم لوگ پھانسی چڑھنے کے خطرے سے دوچار ہوتے ہیں بلکہ سزائے موت کے حامی نظاموں میں بچے اور ذہنی معذور لوگ بھی اس کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
یہ حقیقت قابلِ ذکر ہے کہ ایچ آر سی پی کی رپورٹس کے مطابق، ریاست نے 2020 کے دوران کسی فرد کو پھانسی نہیں دی اور ایسے کیسز بھی کمی ہوئی ہے جن میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ 2019 میں 578 قیدیوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی جبکہ 2020 میں یہ تعداد 177 تھی۔ اس کے علاوہ، فروری میں عدالتِ عظمیٰ کا یہ فیصلہ خوش آئند پیش رفت ہے کہ سنگین ذہنی بیماریوں میں مبتلا قیدیوں کو پھانسی نہیں دی جا سکتی۔ ایچ آر سی پی کا مطالبہ ہے کہ ریاست اس پیش رفت کے بعد پہلے قدم کے طور پر سزائے موت والے جرائم جن میں سے زيادہ تر عالمی قانون کی رُو سے، ‘انتہائی سنگین’ جرائم کی تعریف پر پورا نہیں اترتے، کی تعداد ( جو فی الوقت 33 ہے) پر نظرثانی کرے اور تسلیم کرے کہ انسانی حقوق کے ضمن میں اُس کی عالمی ذمہ داریاں اُسے کسی بھی قسم کے حالات میں موت کے سزا کے استعمال کی اجازت نہیں دیتیں۔
چیئرپرسن حنا جیلانی کے ایماء پر