پریس ریلیز

سماجی اور معاشی انصاف قیام ریاست کی ذمہ داری ہے

لاہور، 9 اکتوبر 2018 : پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی کونسل (گورننگ باڈی) نے اپنے حال ہی میں منعقد ہونے والے اجلاس میں اٹھارہویں ترمیم کوختم کرنے کی کوششوں پر شدید تشویوش کا اظہار کیا ہے۔ یہ تشویش ریاستی اداروں اور قومی اسمبلی کے منتخب اراکین کی جانب سے دیے گئے بیانات میں بھی نظرآتی ہے۔  کونسل نے کہاکہ یہ ایسے کسی بھی اقدامات کی مذمت کرتی ہے۔ اس نے مزید کہا کہ اٹھارہویں ترمیم پاکستان کی بطور وفاقی مملکت شناخت اور جمہوریت کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ بات بھی باعث تشویش ہے کہ ملک میں سویلین حکومت کی رٹ کمزور ہوتی جارہی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتخابات کے بعد سے ‘رینگتی بغاوت’ کے کردار میں کوئی کمی نہیں آئی۔

کونسل نے یہ بھی کہا کہ ایچ آر سی پی ملکی سیاست میں عدالتی کردار کے بارے میں فکر مند ہے۔ ہمیں سیاسی تنازعات اور عوامی پالیسی سے متعلق معاملات کے حل کے لیے عدالتی فعالیت کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے۔ جمہوری نظام کو اپنا راستہ متعین کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے۔

پاکستان میں پریس کی آزادی پر مسلسل پابندیاں شدید تشویش کا باعث ہیں۔ صحافی، میڈیا ہائوسز کے مالکان اوراخبارات کے ڈسٹری بیوٹرزکو دھمکیاں دی جارہی ہیں، اورانیں ہراسانی، اغواء اور تشدد کے ذریعے دبائو ڈالا جارہا ہے۔ ایسے صحافی جو محض اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں ان کے خلاف غداری کے الزامات کو بطور آلہ استعمال کرکے اظہار رائے کی آزادی اور اختلاف رائے کو دبانے کی کسی صورت اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ایچ آر سی پی یہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ ریاست گلگت- بلتستان میں سیاسی قیدیوں کی صورتحال کا فوری طور پر ازسرنوجائزہ لے اور اختلاف رائے کا گلا گھونٹنے کے لیے چوتھے شیڈول کے استعمال سے گریز کرے۔

ایچ آرسی پی کوفیلڈ میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے محافظین کی ان اطلاعات پرشدید تشویش ہے کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے اورلوگوں کو غائب کرنے اوران کی معاونت کرنے والوں کو بالکل بھی جوابدہ  نہیں ٹھہرایا جارہا باوجود ان اطلاعات کے کہ جبری گمشدہ بعض لوگ اپنے گھروں کو واپس لوٹے ہیں۔ ہم ایک بارپھرمطالبہ کرتے ہیں کہ جبری گمشدگی کو تعزیرات پاکستان کے تحت جرم قراردیا جائے۔ ایچ آرسی پی کا ریاست سے یہ مطالبہ بھی ہے کہ وہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی مئوثرتربیت کرے اورانہیں جدید سازوسامان سے لیس کرے تاکہ وہ معاشرے کی دوست ایجنسیوں کا کردارادا کریں جن کا اولین فریضہ معاشرے کی خدمت ہو۔ پولیس میں فائرنگ سے رغبت کا جو رجحان پایا جاتا ہے اس نے کراچی میں دوکمسن بچوں کی جان لے لی ہے: اس رجحان کو ختم ہونا ہوگا۔

لوگوں کی زندگی کے بنیادی حق کے تحفظ کے ریاستی فریضے میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ بچوں کی خوراک کی کمی کے باعث ہونیوالے ہلاکتوں ۔ ۔ ۔ صرف ستمبرمیں تھرمیں 50 بچے ناکافی خوراک کے با‏عث اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں؛ کان کنی کے حادثات، خاص طورپربلوچستان میں اورگلگت- بلتستان میں خواتین کی خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات جیسے مسا‏ئل سے نبٹے۔ اسی طرح، اگرچہ معاشی و سماجی انصاف کی بنیادی ذمہ داری ریاست پرہی عائد ہوتی ہے، تاہم دیگرحلقوں کے کردارکو تسلیم کرنا اوران کی استعداد میں اضافہ کرنا بھی انتہائی اہم ہے جو غربت کو کم کرنے اورانسانی حقوق کے تحفظ کی جہدوجہد کررہے ہیں۔ 18 عالمی امدادی تنظیموں کی ملک سے بے دخلی اوربعدازاں سوشل میڈيا پران کی کردارکشی کی مہم کا پاکستان کو نقصان ہوا ہے کیونکہ زیادہ ترالزامات بے بنیاد اورمضحکہ خیز ہیں۔ انسانی حقوق کے تحفظ اورسماجی انصاف کے قیام کے لیے، ریاست کو ان تمام اتحادیوں کو ساتھ لےکرچلنے کی ضرورت ہے جو اسے دستیاب ہیں۔

ڈاکٹرمہدی حسن

چیئر پرسن