پریس ریلیز 

عدالتﹺ عظمیٰ میں جسٹس عائشہ ملک کی بطورﹺ جج تعیناتی خوش آئند پیش رفت ہے

لاہور، 7 جنوری 2022۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان(ایچ آر سی پی) نے عدالتِ عظمیٰ میں جسٹس عائشہ ملک کی بطورِ جج تعیناتی کو خوش آئند پیش رفت قرار دیا ہے۔ ملکی عدلیہ کی تاریخ میں عدالتِ عظمیٰ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی، عدلیہ میں صنفی تنوع کو فروغ دینے کے حوالے سے ایک اہم قدم ہے، خاص طور ایسی عدلیہ میں جہاں اطلاعات کے مطابق، مجموعی طور پر خواتین ججوں کی تعداد صرف 17 فیصد ہے اور اعلیٰ عدلیہ میں ان کی شمولیت 4.4 فیصد سے کم ہے۔

اﹺس کے باوجود، بنچ اور بار میں پاکستان کی صنفی تفاوت کا ازالہ، اور طبقے، نسل یا مذہب کی بنیاد پر دیگر طرح کی تفاوت کے خاتمے کے لیے زیادہ سرگرم اور طویل المدت لائحہ عمل کی ضرورت ہے جو قانونی برادری میں ڈھانچہ جاتی امتیازی سلوک اور جنسی اعتبار سے ناروا رویے پر قابو پائے۔ اس مقصد کے لیے  جوڈیشل کمیشن آف پاکستان جیسے فیصلہ ساز اداروں میں ہونہار عورتوں جن کی یقیناﹰ کمی نہیں ہے، کی تعیناتی اور زيادہ وسائل صرف کرنے کی ضرورت ہے تاکہ شعبہ قانون میں تعلیم، تربیت اور پیشہ ورانہ تربیت سمیت دیگر مواقع تک تمام طبقوں اور علاقوں کی عورتوں کی رسائی آسان ہو سکے۔ اس کے علاوہ، نامزدگی اور تعیناتی کا طریقہ کار اور زيادہ شفاف اور جمہوری بنانے کی ضرورت ہے تاکہ تناز‏عات سے بچا جا سکے۔

صنفی اعتبار سے زيادہ متنوع عدلیہ انصاف اور معیاری انصاف تک عوام کی رسائی کے لیے بہت زيادہ مفید ہے۔ یہ ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ بنچ میں اگر عورتوں کی شمولیت زيادہ ہو گی تو عدالتیں پس ماندہ طبقوں سے تعلق رکھنے والے فریقین مقدمہ اور متاثرین کے لیے زيادہ قابل رسائی بنیں گی اور تنیجتاﹰ عدلیہ پر عوام کا اعتماد بڑھے گا۔

حنا جیلانی
چیئرپرسن