پریس ریلیز
لاہور کے ‘نظرانداز شدہ شہری’: پکھی واس برادری کی سی این آئی سی تک رسائی
لاہور، 10 نومبر 2021۔ آج منعقد ہونے والی ایک پالیسی مشاورت میں، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے ایک تحقیق کے کلیدی نتائج پیش کیے جس میں لاہور اور گردونواح میں مقیم موسمی مزدوروں جن میں سے بیشتر خانہ بدوش یا پکھی واس برادری سے ہیں، کو شہریت کے حوالے سے درپیش مشکلات کا جائزہ لیا گیا تھا۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ پکھی واس برادری کی بہت بڑی تعداد کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز (سی این آئی سیز) کے فوائد سے لاعلم تھی۔ وہ اس حقیقت سے بھی بے خبر تھے کہ شہریتی دستاویزات کی بدولت وہ صحت عامہ کی سہولیات اور سماجی تحفظ کے منصوبوں جیسے کہ بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ دیگر سفارشات پیش کرنے کے علاوہ، ایچ آر سی پی نے پکھی واس برادری کو سی این آئی سی کے لیے درخواست دینے کی ترغیب دینے کے لیے برادری کی سطح پر ایڈووکیسی اور ملکی مردم شماری میں خانہ بدوش برادری کی شمولیت کے لیے ہنگامی یونٹ کے قیام اور یوں جمع شدہ کوائف وزارت انسانی حقوق کو بھیجنے کی اہمیت اجاگر کی تاکہ اس برادری کو شہریتی عمل کا حصہ بنایا جا سکے۔
صوبائی وزیر سماجی بہبود یاور عباس بخاری نے مشاورت کے شرکاء کو یقین دلایا کہ پکھی واس برادری جیسے پسماندہ طبقوں کے اندراج کو آسان کرنے کے لیے کیمپ لگائے گئے تھے اور ایسی برادریوں کو سماجی تحفظ کے منصوبوں اور شہریتی دستاویزات تک رسائی دینے کا عہد کیا۔ رکن صوبائی اسمبلی عائشہ اقبال نے کہا کہ بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام میں عورتوں کی شمولیت بڑھانے کے لیے تحفظ نسواں اتھارٹی اور محکمہ ترقی نسواں کو شہریت کی ایڈووکیسی مہموں کا حصہ بنایا جائے۔ ڈائریکٹر جنرل بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام پنجاب ظفر کمال نے کہا کہ شہریوں کے اندراج کو سماجی تحفظ تک رسائی سے منسلک کرنے کے لیے موجودہ حکمت عملی پر عملدرآمد بھی ضروری ہے۔
پارلیمانی سیکرٹری برائے انسانی حقوق، مہندر پال سنگھ نے سفارش پیش کی کہ نادردا پکھی واس گھرانوں کے اندراج کے لیے ایسا نظام متعارف کروائے جس میں دو ضامنوں کی ضرورت نہ پڑے کیونکہ یہ ایسی شرط ہے جسے پورا کرنا کئی گھرانوں کے لیے ممکن نہیں۔ متعدی امراض کی روک تھام و کنٹرول پروگرام کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شاہد مگسی نے کہا کہ صوبائی محکمہ صحت نے کبھی بھی ایسے شہریوں کو ویکیسنیشن دینے سے انکار نہیں کیا جس کے پاس شناختی کارڈز نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ، البتہ، کوویڈ 19 ویکسینیشن وفاقی معاملہ تھا، اور اس کے لیے سی این آئی سی درکار تھا۔