مذہب کی جبری تبدیلی کے خلاف مسودہ قانون منظورکیا جائے

لاہور، 22 مارچ 2019۔ گھوٹکی میں دوکمسن ہندو لڑکیوں کے مبینہ اغواء اورانہیں جبری مسلمان بنائے جانے کے واقعے کے بعد، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آرسی پی) نے سندھ اسمبلی سے مطالبہ کیا ہے کہ ‘ وہ مذہب کی جبری تبدیلی کو جرم قراردینے والے مسودہ قانون میں نئی روح پھونکے اوراس کی منظوری کے لیے فوری اورسنجیدہ اقدامات کرے۔’

ایچ آرسی پی نے کہا ہے کہ اس بل کی منظوری اورنفاذ اشد ضروری ہے۔ اس وقت، مذہب کی جبری تبدیلی بہت آسان اوربہت عام ہے۔ ۔ ۔مذہب کی رضاکارانہ تبدیلی کے بھیس میں۔ اورکمسن بچیاں اس کا خاص نشانہ بنتی ہیں۔ جبری تبدیلی مذہب کے حوالے سے بھیانک حقیقت یہ ہے کہ اسے جرم نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسے ایسا مسئلہ بھی نہیں جانا جاتا جس کے بارے میں ‘قومی دھارے’ کے (مسلمان) پاکستان کو کوئی فکرلاحق ہو۔ گھوٹکی میں دوکمسن لڑکیوں کا اغواء اس کی واضح مثال ہے: انتہائی افسوسناک بات ہے کہ لڑکی کے والدین ایف آئی آردرج نہیں کرواسکےجو کہ اس طرح کے واقعات کے میں سب سے پہلا دفاع ہوتا ہے۔

ریاست اپنے تمام شہریوں کے مذہب یا عقیدے کا تحفظ کرنے کی پابند ہے۔ یہ حقیقت ہمیں سوچنے پرمجبورکرتی ہے کہ مذہب کی جبری تبدیلی کے خلاف بل 2016 کو اس وقت کے گورنر جسٹس صبیح الدین نے منظور کیوں نہیں کیا تھا۔ کسی قسم کی کوئی وجوہات نہیں دی گئی تھیں، نہ ہی یہ واضح ہے کہ انہوں نے بل کو باقاعدہ طورپرواپس بھیج دیا تھا یا زیرغورحالت میں چھوڑاتھا۔ بالکل اسی طرح، سندھ حکومت کو  چندمذہبی جماعتوں، جنہوں نے بل کی مخالفت کی تھی، کے زیردبائو نہیں آنا چاہیے تھا۔ موجودہ سندھ اسمبلی کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ بل کا دوبارہ جائزہ لے اور بل کے مندرجات یا اس کی اساس پراعتراض کرنے والی انتہائی دائیں بازوکی مذہبی تنظیموں یا افراد یا جماعتوں کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکے۔’

ڈاکٹرمہدی حسن

چیئرپرسن