لاہور
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق(ایچ آرسی پی) نے جمعرات کے روز عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں ہجوم کے ہاتھوں ایک طالبعلم کی ہلاکت پرشدید تشویش کا اظہارکیا ہے۔ کمیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اوروحشیانہ قتل کے بعد شہریوں، خاص طورپرطالبعلموں اوراساتذہ میں پھیلنے والی دہشت اورخوف پرقابو پانے کے لیے تمام مؤثراقدامات کیے جائیں۔
مردان میں ایک طالبعلم کی ہلاکت اوردوسرے کے شدید زخمی ہونے کے واقعے نے پہلے سے عیاں حقیقت کو ایک بارپھرآشکارکردیا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس حد تک خون کا پیاسا ہو چکا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہرہوتا ہے کہ کسی کو بلا جھجک مارنے کے لیے مذہب کا استعمال، چاہے وہ ناجائز ہی کیوں نہ ہو، کتنی آسانی کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کریہ کہ ریاست کا شہریوں کو تشدد سے تحفظ کا عزم اُن کے عزم سے کمزورہے جو انسانوں کے قتل عام کے لیے مذہب کا نام استعمال کررہے ہیں۔الفاظ اس صورتحال کی مذمت سے قاصرہیں۔
ایچ آرسی پی کے لیے یہ بات انتہائی دکھ کا باعث ہے کہ رونگٹے کھڑے کرنے والی بربریت اعلی تعلیم کے ادارے میں پیش آئی ہے جہاں طالبعلموں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ دوسروں کے خیالات کو برداشت کریں گے جو کہ خیالات کے آزادانہ تبادلے کے لیے ناگزیرہے۔
مشعل خان کی زندگی کے حق کے تحفظ میں ریاست کی مکمل ناکامی سے طالبعلموں اوراساتذہ میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ اگرمشعل خان کے بہیمانہ قتل میں ملوث تمام عناصرکے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو اس بربریت میں صرف اضافہ ہی ہو گا۔
مردان میں جس انتشار کا اظہارہوا ہے یہ صرف یونیورسٹی کی چند روزبندش سے ختم نہیں ہوگا۔مُثبت انسانی اقدارپریقین رکھنے والے تمام لوگوں کو بولنا پڑے گا اوراُن لوگوں کے ہاتھوں مذہب کے نام پرہونیوالی قتل و غارت کو ختم کرنے کے لیے تجاویز دینا ہوں گی جومذہب کے نام نہاد محافظ بنے ہوئے ہیں۔ ایسی بربریت کے سامنے ہماری خاموشی شریک جرم ہونے کے مترادف ہے۔
(ڈاکٹر مہدی حسن)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی