وزیرستان میں ‘عزت’ کے نام پر ہونے والے سفاکانہ قتل قابلِ مذمت ہیں

لاہور، ١٧ مئی۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے وزیرستان کے ایک گاؤں میں دو نوعمر لڑکیوں کے سفاکانہ قتل کی شدید مذمت کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق، مقتولہ لڑکیوں کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو منظرعام پر آنے کے بعد اُن کے خاندان کے کسی فرد نے اُنہیں ‘عزت’ کے نام پر قتل کر دیا۔

فوجداری قانون (ترمیمی) (عزت کے نام پر ہونے والے جرائم) ایکٹ ٢٠١٦ کی منظوری کے باوجود، ایسے کوئی شواہد دستیاب نہیں جو ظاہر کر سکیں کہ ‘عزت’ کے نام پر جرائم کی تعداد اورقبُولیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس قسم کے فرسودہ اورانتہائی خطرناک تصورات ابھی بھی رائج ہیں کہ ‘عزت’ عورتوں کے جسم سے جُڑی ہوئی ہے اور  ‘عزت’ کے نام پر جرائم اب بھی پاکستان بھر میں پیش آ رہے ہیں، اور حال یہ ہو کہ مجرم ‘عزت’ کے نام پر جرائم سر زد کیے جا رہے ہوں اور اُنہیں محاسبے سے بھی تحفظ حاصل ہو تو پھر تبدیلی کے لیے صرف قوانین کی منظوری ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ اور بھی بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ یہ پدرشاہی نظام جو اتفاقی جنسی تعلق کا علمبردار ہے وہی پدرشاہی نظام ہے جو ‘عزت’ کے نام پر جرائم کو جائز قرار دینے کے لیے، اُن کی حمایت کے لیے اور  اُنہیں سرزد کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی قابل قبول نہیں ہے۔

ایچ آر سی پی کو یہ جان کر بھی شدید تشویش ہوئی ہے کہ کئی ایسے لوگوں کو دھمکایا گیا اور اُن کا مذاق اڑایا گیا ہے جنہوں نے سوشل میڈیا پر وزیرستان میں ہونے والے دہرے قتل کے خلاف آواز اٹھائی۔ ریاست کو ہر ایک شخص پہ واضح کرنا ہو گا کہ وہ اس بہیمانہ روایت کی حمایت کو کسی صورت برداشت نہیں کر ے گی۔

مقامی انتظامیہ کو ویڈیو میں نظر آنے والی تیسری لڑکی اور ایک شخص کے تحفظ اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ ریاست کو سابق وفاقی انتظامی قبائلی علاقوں میں انسانی حقوق کے تحفظ کا عزم ظاہر کرنے کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ یہ یقینی ہو سکے کہ انسانی سلامتی کو ‘قومی سلامتی’ پر ترجیح حاصل ہے۔

چئیر پرسن ڈاکٹر مہدی حسن کے ایماء پر