پریس ریلیز،لاہور 26جون2013
تھانوں اورجیلوں میںزیر حراست افراد کو ایذ رسانی ، انتہائی غیر انسانی سلوک ،رویہ اورقانون کی حکمرانی کے لیے بہت بڑا خطرہ اور چیلنج ہے ۔اِس ضمن میں یہ بات قابلِ مذمت ہے کہ پاکستان میں روزانہ تھانوں میں زیرِ حراست کم ازکم 1300 افراد پر ٹارچر کیا جاتا ہے جو کہ اقبالِ جرم کرانے کا ظالمانہ طریقہ کار ہے ۔اِن خیالات کا اظہار 26 جون کو ٹارچر(ایذرسانی)کے خلاف عالمی دن کے موقع پر ہونے والے سیمنارمیں مقررین نے کیا جس کا موضوع “ٹارچر کا خاتمہ :انسانی حقوق کا تحفظ”تھا۔ یہ سمینار ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان،ساﺅتھ ایشیا پارٹنر شپ پاکستان،ایشین ہیومن رائٹس کمیشن، اینٹی ٹارچر الائنس ،پاکستان کے زیر اہتمام ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوا۔ اِس میں پنجاب ،سندھ اور سو ل سوسائٹی تنظیموں نے شرکت کی ۔ اِس موقع پر اپنی تقریر میں HRCP کے جنرل سیکرٹری آئی اے رحمان نے کہاکہ پاکستان میں ایذ رسانی یا ٹارچر کے بغیر تفتیش اوراقبالِ جرم کا کوئی نظام موجو د نہیں ہے جو کہ ہماری ریاست میں ا نگریز دور کے نو آبادیاتی نظام کے غیرانسانی رویوں کی پیروی اور تسلسل ہے، اُنہوںنے کہاکہ انگریز دور کے پینل کوڈ کے تحت سزاﺅں اور ایذانسانی کا یہ عمل انسانی حقوق کے منافی ہے اور ہمارے عدالتی ،قانونی اور انتظامی نظام میں راسخ ہو چکا ہے ۔اُنھوں نے اِس بات پر زور دیا کہ ہر سطح پر حکومتی اور ریاستی اداروں کو ٹارچر کے خلاف قائل کرنے کے لیے باقاعدہ مہم چلانے کی ضرورت ہے۔اُنھوںنے اِس پر دُکھ کا اظہار کیا کہ جیلوں میں88 ہزار قیدی ہیں جن میں سے دو تہائی قیدی وہ ہیںجن پر مقدمات چل رہے ہیں۔ اینٹی ٹارچر الائنس،پاکستان کی نمایندہ بشری خالق نے کہاکہ ٹارچر غیر انسانی رویوں کی بنیاد ہے۔اُنھوں نے کہا کہ پاکستانی ریاست بہت سے مسائل اور تنارعات سے دوچار ہے ایسی صورتحال میں انسانی حقوق کی پامالی زیادہ ہو رہی ہے جبکہ معاہدہ بخلا ف ٹارچر بار بار یہ بتا رہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندر ٹارچر غیر قانونی ہے ، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ریاستی اداروں کے اہل کاروں کے لیے ٹارچرکرنے کے خلا ف کوئی قانون نہیں ہے۔ اِس لیے ہماری ریاست ٹارچر کے خاتمہ کے لیے قانونی ، عدالتی اور انتظامی سطح پر قانون سازی کرے۔جیو کے سربراہ خاور نعیم ہاشمی نے بحالی جمہوریت کے لیے اپنی جدوجہد کی تفصلات بتائیں اور پاکستان کی مختلف جیلوں میں ٹارچر کی خوفنا ک صورتحال بیان کی ۔اُنھوں نے کہا کہ آمریت کے دور میں سیاسی قیدیوں کو ترقی پسندانہ نظریات رکھنے کی پاداش میں شاہی قلعہ جیسے عقوبت خانہ میں بے تحاشہ ظلم ڈھائے اور ایسے ایسے ٹارچر کیے کہ جن کے سامنے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا۔ سابقہ ایم پی اے پی پی پی ،ساجدہ میر نے بحثیت سیاسی قیدی جیلوں کے اندر ضیاءالحق کے دور میں خود پر ہونے والے ٹارچر کی روداد بیان کی ۔سیپ پاکستان کے ایگریکٹو ڈائریکٹر نے اِس بات پر زور دیا کہ تھانوں اور جیلوں میں ٹارچر کے خاتمے کے لیے ابھی بہت کام کی ضرورت ہے جس کے لیے ہمیں متحد ہو کر اان ریاستی اداروں میں ایذ رسانی کا کلچر ختم کرنا ہو گا ،تاکہ وہا ں گالی گلوچ اور مارپیٹ جیسے گھناﺅنے واقعات کا خاتمہ ہو ۔سمینار سے سیپ پاکستان کی منیجر ایڈوکیسی ذکیہ ارشدنے خطاب کیا اس کے علاوہ سندھ سے شہناز شیدی ،بہاولپور سے فاروق احمد خان، ملتان سے شائستہ بخاری اور فیصل آباد سے امنیہ زمان نے ٹارچر کے خاتمہ کے لیے اپنے اپنے اضلاع کے تھانون ،جیلوں اور دارالامان میں کیے جانے والے کام کے مثبت نتائج اور درپیش چیلنجر پر بات کی۔

منجانب:فرزانہ ممتاز0331-4044981 بشری خالق 0300-9402316(کمیٹی برائے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان،ساﺅتھ ایشیا پارٹنر شپ پاکستان،اینٹی ٹارچر الائنس،پاکستان اور ایشین ہیومن رائٹس کمیشن )