(پاکستان: سزائے موت کا سب سے زیادہ نشانہ غریب اورمحروم طبقوں کے لوگ بنتے ہیں(رپورٹ

پیرس- لاہور، 8اکتوبر2019۔ ، ایف آئی ڈی ایچ اوراس کی رکن تنظیم پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق ( ایچ آر سی پی) نے آج جاری ہونے والی اپنی ایک رپورٹ میں بتایاہے کہ پاکستان میں سزائے موت کے حوالے سے غریب اورپِسِے ہوئے طبقے کے لوگوں کو انتہائی منّظم تعصب کا سامنا ہے ۔ سزائے موت کے خلاف عالمی دن (10 اکتوبر) سے قبل شائع ہونےوالی رپورٹ میں پاکستانی حکومت سے فوجداری نظامِ انصاف میں اصلاحات لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ قواعد و ضوابط اورپالیسی سے متعلقہ اُن مسائل کو ختم کیا جا سکے جن کی وجہ سے معاشرے کے پِسے ہوئے لوگ موت کی سزا اورپھانسییوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔

” بے دست و پا ہونے کے سبب مستوجب سزا  ٹھہرے: پاکستان معاشرے کے غریب ترین اورپِسے ہوئے لوگوں کو کس طرح تختہ دارپر لٹکاتا ہے”، نامی رپورٹ ایک تحقیق پرمبنی ہے جو دوتنظیموں نے نومبر2018 میں پاکستان میں سزائے موت کے مسئلے کا مفصّل جائزہ لینے کے لیے کی تھی۔ تحقیق میں سزائے موت والے جرائم کے ملزمان کے شفاف ٹرائل کے حق، جیل میں سزائے موت کے قیدیوں کی حالت، کم عمربچوں کو موت کی سزا کا سنایا جانا اورانہیں کی پھانسی کے پھندے پرلٹکانا، اورسزائے موت کے قیدیوں کے اہلِخانہ پر اُن کی سزا کے اثرات پرتوجہ مرکوزکی گئی تھی۔ ایک تکلیف دہ حقیقت جو پوری تحقیق کے نتیجے میں سامنے آئی وہ یہ تھی: معاشی لحاظ سے کمزورطبقے اورمعاشرے کے دیگرمحروم حلقے پاکستان کے فوجداری نظامِ  کے نقائص کا زیادہ نشانہ بن رہے ہیں۔

ایف آئی ڈی ایچ کے سیکریٹری جنرل شوان جبارن نے کہا،” یہ انتہائی تشویش ناک بات ہے کہ پاکستان میں اُن لوگوں کو موت کی سزا کا نشانہ بنانے کے زیادہ امکانات ہیں جو معاشرے کی نچلی سطح سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگرچہ سزائے موت جہاں کہیں بھی لاگو ہو وہاں انتہائی بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کا سبب بنتی ہے مگر پاکستان میں اس کا امتیازی اطلاق خاص طورپر باعثِ تشویش ہے”۔

پاکستان کا فوجداری نظامِ انصاف اِس وقت جس طرح رائج ہے ۔۔۔۔ پولیس کی تحقیقات سے لے کر مقدمہ سازی اورعدالتی ٹرائل تک، اس میں اس چیزکے قوی امکانات ہیں کہ معاشرے کے سب سے پسماندہ طبقے دباؤ کے تحت اعترافِ جرم کریں گے، عدالتوں میں غیرمنصفانہ ٹرائل کی زد میں آئیں گے، اورموت کی سزا کا نشانہ بنیں گے۔ وہ غیرمعمولی طورپرمنظم تعصب کا نشانہ بنتے ہیں اوریہ چیزانہیں قانونی چارہ جوئی کی بےضابطگیوں اورپھانسی کے پھندے کے اورزیادہ قریب کردیتی ہے۔

پاکستان میں موت کی سزا  سزائے موت کے قیدیوں کے اہلِ خانہ پربہت زیادہ سنگین اوردوررس اثرات مرتب کرتی ہے۔  اِن میں سماجی و معاشی اثرات بھی شامل ہیں۔ سزا یافتہ لوگ عام طورپر اپنے گھرانوں کی کمائی کا واحد ذریعہ ہوتے ہیں۔ اِس کے علاوہ قانونی کارروائیاں جو سالہا سال چلتی رہتی ہیں، سزائے موت کے قیدیوں کے خاندانوں کو سخت معاشی نقصانات سے دوچار کرتی ہیں۔ مزید برآں، یہ تکلیف دہ عمل نفسیاتی درد کا سبب بھی بنتا ہے۔ سزائے موت کے ایک قیدی کی شریکِ حیات نے اپنے خاوند کی قید کے اثرات بیان کرتے ہوئے کہا: ”(میرا خاوند) 27 برسوں سے جیل میں ہے۔ وہ جیل کے اندر سزا بھگت رہا ہے اورمیں جیل کے باہر سزا بھگت رہی ہوں”۔

اگرچہ حالیہ برسوں میں پاکستان میں پھانسیوں میں کمی واقع ہوئی ہے مگراس کے باوجود ملک کا شماردنیا کے اُن ممالک میں ہے جہاں سب سے زیادہ لوگ تختہ دارپرلٹکائے گئے ہیں۔ دسمبر2014 میں پھانسیوں پرپابندی کے خاتمے سے لے کراگست 2019 تک ملک کی عدالتوں نے لگ بھگ 1800 افراد کو سزائے موت سنائی ہے اور520 افراد کو پھانسی دی گئی ہے۔ پاکستان میں 32 جرا‏ئم کے لیے موت کی سزا لاگوہے جن میں سے کئی ایسے جرم ہیں جو ”عالمی قانون کے تحت انتہائی سنگین جرائم کی تعریف” پرپورا نہیں اترتے۔

اِس رپورٹ سے پہلے ایف آئی ڈی ایچ- ایچ آرسی پی نے جنوری 2007 میں، ”بوجھل قدموں کے ساتھ پھانسی گھاٹ کی طرف روانگی” شائع کی تھی۔

ایچ آر سی پی کے چئیرپرسن ڈاکٹرمہدی حسن

عالمی وفاقی برائے انسانی حقوق(ایف آئی ڈی ایچ)

کے ایماء پر