یز
پاکستان یو ڈی ایچ آرکے 70 برس بعد کہاں کھڑا ہے؟
لاہور، 10 دسمبر 2018۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آرسی پی) نے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پرانسانی حقوق کے نامورمحافظ آئی اے رحمان کے پبلک لیکچرکا اہتمام کیا۔ دراب پٹیل آڈیٹوریم میں ہونیوالے اس تقریب می\ں طالبعلموں، وکیلوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اورصحافیوں سمیت سول سوسائٹی تنظیوں کے افراد نے شرکت کی۔
‘ 2017 میں تیسرے یونیورسل سلسلہ وارنظرثانی میں پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ’ لیکچرکا موضوع تھا۔ کونسل برائے انسانی حقوق کی قیادت میں تمام فریق ریاستوں کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے اقدامات کا ذکرکریں جو انہوں نے اپنے ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال میں بہتری لانے اورانسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اپنے پرعائد ذمہ داریاں پورا کرنے کے لیے کیے ہوتے ہیں۔
ایچ آرسی پی کے لیے یہ بات تشویشناک ہے کہ پاکستان کو ملک میں انسانی حقوق کے مختلف معاملات پردیگرممالک سے ملنے والی سفارشات میں بہت زيادہ اضافہ ہوا ہے۔ 2008 میں پاکستان کو 51 سفارشات موصول ہوئی تھیں جن میں سے اس نے 43 قبول اورآٹھ مسترد کی تھیں۔ 2012 میں اپنے دوسرے یو پی آرمیں پاکستان کو167 سفارشات موصول ہوئیں جن میں سے 126 قبول کیں، 34 کو ‘نوٹ’ کیا اورسات’مسترد’ کیں۔
یہ لمحہ فکریہ ہے کہ 2012 میں انسانی حقوق کے معاملات پر167 سفارشات کے مقابلے میں 2017 میں تیسرے یو پی آر کے دوران پاکستان کو پیش کی جانے والی سفارشاشات کی تعداد 289 ہو گئی ہے۔ ان میں سے ہماری ریاست نے 168 کی ‘حمایت’ کی، 121 ‘نوٹ’ کیں جبکہ چارکو مسترد کیا۔
‘ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ تیسرے یوپی آر کے تحت جن سفارشات کو عمومی طور پر ‘تسلیم’ کیا گیا ان میں سے زیادہ تر کا تعلق دیگر امور کے علاوہ، اس بات سے تھا کہ غربت اور عدم مساوات میں کمی کی جائے؛ جبری گمشدگیوں کو فوجداری جرم قرار دیا جائے اورجبری گمشدگی اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کے تمام الزامات کی مکمل تحقیقات کی جائے؛اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایذارسانی کے تمام مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے؛ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تمام افراد کے لیے شفاف ٹرائل کے حق یو یقنینی بنایا جائے؛ اور صحافیوں اور میڈیا کے ملازمین کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو حاصل سزا سے استثنا کا خاتمہ کیا جائے۔
تاہم، ایچ آرسی پی کو جس بات پر تشویش ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان نے انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں کی ‘تائید’ کرنے کی بجائے انہیں ‘نوٹ’ کرنے کا انتخاب کیا جن میںانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث سکیورٹی فورسز کے خلاف تحقیقات اور قانونی کارروائیوں کی رپورٹنگ؛خواتین اور لڑکیوں اور لسانی اور مذہبی اقلیتوں سمیت محروم طبقات کے خلاف امتیازی قوانین میں ترمیم کرنا؛ بچوں کے حقوق کا ، خاص طور پر انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران، زیادہ موثر طریقے سے تحفظ کرنا؛ سزئے موت دینے اور بچوں کو پھانسی دینے سے اجتناب کرنا؛ مذہبی اقلیتوں کے خلاف توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال اور تشدد کے استعمال کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کرنا شامل ہے۔
‘ایچ آر سی پی ریاست پر زور دیتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق نظام ہائے کارکے ساتھ تعاون پر آمادگی کا عزم ظاہر کرے، اور یو پی آر کی ان تمام سفارشات کا من و عن اطلاق کرے جو اس نے ‘نوٹ’ کی ہیں یا جنہیں اس نے ‘تسلیم’ کیا ہے۔
2022ء تک، ملک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ میں نمایاں بہتری دکھائی دینی چاہئے، محض ملک کی بین الاقوامی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے کہ یہ اصول انسانی حقوق کے بین الاقوامی اعلامیے، جس پر پاکستان نے دستخط کررکھے ہیں، کے تحت ریاست کی اپنے شہریوں اور رہائشیوں کے حوالے سے اخلاقیات اور ذمہ داری کا حصہ ہیں۔
ڈاکٹرمہدی حسن
چئیرپرسن