پریس ریلیز

لاہور

03مئی 2018

پریس کے عالمی دن کے موقع پر پریس کتنی آزاد ہے؟

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے ملک میں گزشتہ چند ماہ کے دوران پریس کی آزادی میں تیزی سے ہونے والی تحفیف کا سنجیدگی سے جائزہ لیا ہے۔ عین اسی وقت خیبر پختونخوا میں نچلی سطح سے شروع ہونے والی ایک مضبوط تحریک بھی جاری ہے۔ پریس کی آزادی کے عالمی دن کے موقع پر جاری کیے گئے ایک بیان میں کمیشن نے پریس کے خلاف ہراسانی اور دھمکیوںمیں حالیہ اضافے، اور لوگوں کی اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوششوں کی مذمت کی ہے۔

ایچ آر سی پی نے ایسے دو واقعات کی نشاندہی کی ہے جو اس تشویش ناک رجحان کی عکاسی کرتے ہیں: ’پہلا واقعہ جیو ٹی وی پر حالیہ پابندی سے متعلق ہے۔ یہ بات شدید تشویش کا باعث ہے کہ یہ پابندی میڈیا سے متعلق حکومت کے انضباطی ادارے، پیمرا یا وفاقی وزارت برائے اطلاعات نے عائد نہیں کی تھی۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ پشتون تحفظ تحریک کے تناظر میں لکھے گئے انگریزی کے متعدد اخباری مضامین جن میں شہریوں اور ریاست کے مابین غیر ہموار تعلقات کو تنقید کا نشانہ بنایاگیا تھا، کو اخبارات کے آن لائن شماروں سے ہٹا دیا گیا۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب ملک میں عام انتخابات میں صرف دو ماہ باقی ہیں، یہ دونوں پیش رفتیں اچھا شگون نہیں ہیں۔‘

رپورٹنگ اور سماجی و سیاسی پیش رفتوں کے تجزیات، جو عام لوگوں کی جانب سے اپنی اجتماع اور اظہار رائے کی آئینی آزادیوں کے استعمال کی مثالیں تصور کی جانی چاہئیں، پر پابندی کی کوششوں کے علاوہ ان لوگوں کی تقدیرکے حوالے سے بہت کم پیش رفت ہوئی جو اسٹیبلشمنٹ کے حامی بیانیوں پر تنقیدکرنے پر ’لاپتا‘ ہوگئے۔ پریس کے عالمی دن کے موقع پر،ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو پریس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، اسے پریس کو خاموش کرنے کی کوششوں کا نوٹس لینے اور اس کے نتائج پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر مہدی حسن

چیئرپرسن