پریس ریلیز

لاہور

25- اپریل2018

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے رواں ماہ کے دوران کوئٹہ میں جان لیوا حملوں میں اضافے کی شدید مذمت کی ہے۔کل دو مختلف جگہوں پر کچھ منٹوں کے وقفے سے دو خودکش حملے ہوئے۔ پہلا حملہ فرنٹئیرکورکی چوکی کے باہرہوا جس میں فرنٹئیرکورکے آٹھ اہلکارہلاک ہوئے جبکہ اس کے کچھ ہی دیربعد دوسرا حملہ پولیس کی گاڑی پرہوا جس میں چھ پولیس اہلکارمارے گئے۔

ایچ آرسی پی کو کوئٹہ میں تشدد کی بڑھتی ہوئی لہرپرشدید تشویش ہے جس نے اپریل کے آغاز سے ہی شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کل سیکیورٹی فورسزپرہونے والے بہیمانہ حملوں کے علاوہ، مسیحی اورشیعہ ہزارہ برادریاں ہی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہی ہیں۔ یکم اپریل کو نامعلوم مسلح افراد نے ایک کارمیں سوا رشیعہ ہزارہ برادری کے لوگوں پرفائرنگ کی جس سے ایک شیعہ ہزارہ ہلاک اورایک زخمی ہوا۔ 15 اپریل کو، شہرمیں ایک گرجاگھرکے قریب رکشہ میں سوارچارمسیحیوں کو گولیاں مارکرقتل کیا گیا۔ تین دن بعد، 18 اپریل کو، کارمیں سوارمسلح لوگوں نے فائرنگ کرکے ایک شعیہ ہزارہ دکاندارکی جان لے لی۔ پولیس کے مطابق، یہ ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ تھا۔ 22اپریل کو، کوئٹہ کے مغربی بائی پاس کے قریب فائرنگ کے ایک واقعے میں دو شیعہ ہزارہ قتل جبکہ تیسرا زخمی ہوا۔

ایچ آر سی پی کوکوئٹہ میں جاری تشدد پر سخت تشویش ہے۔ ان واقعات میں زیادہ تر مذہبی اقلیتوں کے افراد کو منظم طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایچ آر سی پی کو ریاست کی جانب سے موثر اور ٹھوس کارروائی نہ کیے جانے پر بھی تشویش ہے۔ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی جانب سے جاری کردہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق،گزشتہ پانچ سالوں کے دوران دہشت گردی کی کارروائیوں میں صرف ہزارہ برادری کے 509 افراد ہلاک اور 627 زخمی ہوئے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے جو شہریوں کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں، وہ بھی ان حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔یہ حقیقت صوبے میں جاری امن و امان کے مسئلے کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہے۔ کمیشن حکومت پر زور دیتا ہے کہ وہ ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو فوری طور پر انصاف کے کٹہرے میں لائے اور ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے جو اقلیتی برادریوں کے خلاف تشدد کی ترغیب دیتے ہیں۔

ڈاکٹر مہدی حسن

چیئرپرسن