کوویڈ 19 پر سندھ حکومت کا ردِعمل قابلِ تعریف تھا، مگر 2020 کے دوران انسانی حقوق کی صورتِ حال پریشان کن رہی۔

حیدراباد، 21 جون ۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی سالانہ رپورٹ 2020 میں انسانی حقوق کی صورتِ حال میں بتایا گیا ہے کہ سال کے اختتام تک، ملک بھر میں سے کوویڈ 19 کے مریضوں اور اموات کی سب سے زيادہ اطلاعات سندھ سے رپورٹ ہوئیں۔ سال کے اختتام پر، سندھ میں کوویڈ 19 سے مرنے والوں کی تعداد 3,560 تھی۔ صوبائی حکومت نے ملکی لاک ڈاؤن کے اطلاق سے قبل، وباء کے ابتدائی مرحلے کے دوران، اسکول بند کر کے اور عوامی اجتماعات پر عارضی پابندی عائد کر کے وباء کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتہائی مستعدی کا مظاہرہ کیا۔

سندھ کوویڈ 19 ایمرجنسی ریلیف آرڈینینس 2020  کی منظوری اؚس لحاظ سے ایک خوش آئند پیش رفت تھی کہ اؚس نے مزدوروں، طالب علموں اور مزارعوں کو ریلیف پہنچایا۔ البتہ، یہ اقدامات کمزور نفاذ سے شدید متاثر ہوئے۔ مزدوروں کی تنظیموں نے مزدوروں کی وسیع پیمانے پر چھانٹیوں کی شکایت کی، خاص طور پر نجی شعبے میں۔ پاکستان اسٹیل ملز نے بھی مزدوروں کی چھانٹی کے ؚاس عمل کے دوران 4,500  سے زائد مزدوروں کو   ملازمت سے نکالا۔

ایچ آر سی پی کے مشاہدے میں آیا ہے کہ مقامی حکومتوں کی چار سالہ مدت 30 اگست کو ختم ہو رہی ہے مگر صوبائی حکومت نے 2020 کے اختتام تک، مقامی انتخابات کی نئی تاریخ کا اعلان نہیں کیا تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2020 کے دوران، صوبے میں 121 قیدیوں کو سزائے موت سنائی گئی۔ البتہ، حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ کسی بھی قیدی کو تختہ دار پر نہیں لٹکایا گیا۔

قانون کا نفاذ غیرمستحکم رہا جس کا ایک سبب نئے پولیس چیف کی تقرری پر وفاقی و صوبائی حکومت کے درمیان طویل کشمکش تھی جس سے شعبہ پولیس میں غیریقینی کی صورتِ حال پیدا ہوئی۔ اکتوبر میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں سندھ انسپکٹر جنرل کے اغواء نے حزبِ اختلاف کے رہنماء کی گرفتاری کے لیے پولیس پر بےجا سیاسی دباؤ کے سنگین خدشات کو جنم دیا۔

وفاقی حکومت نے انجمن سازی کے حق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مئی میں ایک قوم پرست سیاسی جماعت جئے سندھ قومی محاذ (آریسر) پرباقاعدہ پابندی عائد کردی ۔ صوبے میں جبری گمشدگیوں میں بھی تشویشناک حد تک اضافہ دیکھا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق، 2020 کے دوران سندھ میں کل 127 افراد لاپتہ ہوئے جن میں سے 112 بازیاب ہو گئے تھے مگر 15، سال کے اختتام تک، ۱ب بھی لاپتہ تھے۔ ایک معروف کیس سیاسی کارکن سارنگ جویو کا تھا جنہیں ان کی جبری گمشدگی کے دوران مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گيا۔

تعلیم تک بچوں کی رسائی غیرتسّلی بخش تھی۔ سندھ کے وزیرِ تعلیم سعید غنی کا کہنا تھا کہ لگ بھگ 35 لاکھ بچے سکول سے باہر تھے۔ غیرت کے نام پر قتل بلا روک ٹوک جاری رہے: ایچ آر سی پی نے صرف سندھ میں عزت کے نام پر 197 جرائم قلم بند کیے۔ متاثرین میں 79 مرد اور 136 عورتیں تھیں۔ صوبے میں ہندو لڑکیوں کے مذہب کی جبری تبدیلی کے کم از کم چھ واقعات رپورٹ ہوئے۔

چئیرپرسن حنا جیلانی کے ایماء پر

http://oldsite.hrcp-web.org/wp-content/uploads/2021/05/State-of-Human-Rights-in-2020-20210503-REPORT.pdf