ڈاکٹر عارف علوی
صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان
محترم شیخ رشید احمد
وزیرِ داخلہ حکومتِ پاکستان
22 نومبر 2021
کُھلا خط: افغان مہاجرین کی صورتِ حال نظرانداز نہیں کی جا سکتی
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) ریاست سے مطالبہ کرتا ہے کہ ملک میں افغان مہاجرین کی حالتِ زار کا مداوا کیا جائے جو جامع پالیسی یا قانون کے فقدان کے سبب یکسر نظرانداز ہو رہے ہیں۔
وزیرِاعظم کے اعلانیہ اعلانات کے برعکس، سرحد پار نقل و حرکت پر نئی اور بےجا پابندیوں کی بدولت افغان شہری بے یارومددگار خوار ہو رہے ہیں۔ قواعد و پالیسی کا یہ مکمل فقدان غیرمنصفانہ ہے اور اس سے حالیہ پُرخطر حالات میں توازن قائم ہونے کی بجائے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ بڑھے گا۔ لہذا، ایچ آر سی پی کا مطالبہ ہے کہ ریاست درج ذیل اقدامات کرے تاکہ موجودہ گھمبیر حالات کو کسی بڑے تباہ کن انسانی بحران میں تبدیل ہونے سے بچایا جا سکے:
انسانی حقوق پر مبنی شفاف پالیسی کی تشکیل
تاریخی طور پر، پارلیمان نے افغان مہاجرین کی صورتحال پر کبھی بھی گفتگو نہیں کی اور یوں یہ معاملہ فوج کی عملداری میں آ گیا جہاں پالیسیاں خفیہ طریقہ کار کے تحت ہی تشکیل پاتی رہی ہیں۔ بالکل اِسی طرح، اِس معاملے پر عوامی بحث مباحثے کو یکسر رد کیا گیا اور ‘خفیہ بریفنگز’ کا اہتمام ہوتا رہا جو ایچ آر سی پی کے خیال میں ناقابلِ قبول ہیں۔ پاکستان میں افغان مہاجرین اور شہریوں کے بندوبست پر قومی پالیسی اختیار کرنے کا کابینہ کا 2017 کا فیصلہ بحال کیا جائے، اور کُل اراکین پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی کو سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ مشاورت کر کے اِس معاملے سے نبٹنے کے لیے کوئی ایسی ٹھوس پالیسی وضع کرنی ہو گی جو انسانی حقوق اور جنگی جرائم کی مطابقت میں ہو۔ اِس پالیسی کو نافذ کرنے سے قبل پارلیمان میں بھی پیش کیا جائے تاکہ اس پر انتہائی ضروری بحث اور گفتگو ہو سکے۔
افغان نمائندگان اور مہاجرین کا مؤقف سُنا جائے
اِس بحران سے نبٹنے کے طریقہ کار کے بارے میں نچلی سطحوں خاص طور پرسرحد پر گشت کرنے والی فورسز اور پولیس میں ابہام پایا جاتا ہے۔ سرحد سے ملنے والی کئی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکام مہاجرین سے بھتہ وصول کر رہے ہیں، بعض کو ترجیحی سلوک سے نواز رہے ہیں، داخلے سے انکار کر رہے اور یہاں تک کہ اُنہیں تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ مہاجرین کے خیموں میں حفظانِ صحت کا نظام ناقص ہے اور مہاجرین کو مقامی انتظامی حکام اور کمیونٹیوں کی ہراسانی اور نفرت انگیز سلوک کا سامنا ہے۔
میزبان کمیونٹیوں کے مفادات اور نقطہ نظر کومدِنظر رکھنا ضروری ہے مگر اِس طرح کے ناروا سلوک سے مہاجرین خاص طور پر بچوں پر ذہنی دباؤ اور تکلیف میں اضافہ ہو گا۔ غیرضروری طور پر مشکل کاغذی کارروائی کی شرائط ميں آسانی لائی جائے، اُن کے رہن سہن کے حالات کو پُروقار بنایا جائے او اُنہیں مزید محفوظ اور شمولیتی ماحول فراہم کیا جائے۔ یہ صرف تب ہی ممکن ہو گا اگر ریاست افغان نمائندگان اور مہاجرین کے مؤقف کو یکسر رﹶد کرنے کی بجائے اُن کے تحفظات کو سنجیدہ لے۔
پاکستان کو معاہدوں، پروٹوکولز اور اپنی ماضی کی نظیر کی پاسداری کرنی ہو گی
پاکستان کو مہاجرین کنونشن 1951 اُس کے پروٹوکول کی توثیق کرنی ہو گی اور اِن ذمہ داریوں کی روشنی میں قومی و مقامی قانون سازی کرنا ہو گی۔ مزيدبرآں، پاکستان کو افغان مہاجرین قبول کرنے کی اپنی ماضی کی نظیر کا لحاظ رکھنا ہو گا اور یو این ایچ سی آر، افغانستان اور پاکستان کے مابین سہ فریقی معاہدے کی تعمیل کرنی ہو گی جس کی رُو سے مہاجرین کی وطن واپسی صرف رضاکارانہ بنیادوں پر ہی ہونی چاہیے۔
مہاجرین کی نوآبادکاری کا عمل تیز کیا جائے
افغان شہریوں کو افغانستان میں رہتے ہوئے وزارتِ داخلہ اسلام آباد سے اجازت نامے یا کارڈ حاصل کرنے کی اجازت دی گئی ہے جو کہ حقیقی معنوں میں ناقابلِ عمل ہے۔ ایچ آر سی پی کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ مہاجرین کے سفر کو محفوظ بنانے اور پناہ کے طلب گاروں کو ویزوں کے فوری اجراء کے لیے درکار دستاویز سازی کے عمل میں تیزی لائی جائے۔ حکومت کو اِس معاملے پر یو این ایچ سی آر سے بھی مشاورت کرنی چاہیے تاکہ بغیر کسی تاخیر کے آسان اور مؤثر رجسٹریشن پالیسی شروع ہو سکے۔ اِس کے علاوہ، سول سوسائٹی اگر افغان مہاجرین کی مدد کرتی ہے تو اُس صورت میں ریاستی حکام اُنہیں ہراساں کرنے کی بجائے اُن کی حوصلہ افزائی کریں۔ سب سے آخر میں، حکومت کو تمام مہاجرین کو بحالیِ نو کے منصوبے تک بلا رکاوٹ رسائی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ مہاجرین صحت کی نگہداشت، روزگار اور اُن کے بچوں کی تعلیم بھی اس منصوبے کا لازمی حصہ ہونی چاہیے۔
عالمی برادری کا حصہ ہونے کی حیثیت سے، پاکستان کی سول سوسائٹی افغانستان کے لوگوں کے بارے میں بجا طور پر فکرمند ہے اور سمجھتی ہے کہ انسانی حقوق کے معاملات کو اقتدارِاعلیٰ کے تصورات پر فوقیت حاصل ہے۔ لہذا، ہم سرحد پر مہاجرین خاص طور پر عورت، بچوں، بیمار اور بزرگوں کے لیے کھڑی کی گئی رکاوٹوں اور اُنہیں سرحد پار کی اجازت دینے سے انکار کی مذمت کرتے ہیں کیونکہ وہ اِس مشکل گھڑی میں ہماری مدد اور ہمدردی کے طلب گار ہیں۔
حنا جیلانی
چیئرپرسن