پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی)ملک کے سب سے بڑے ریئل اسٹیٹ ڈویلپر کی جانب سے کراچی میں زمین کے حصول سے متعلق طریقہ کار کی فوری اور مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیاہے اور ان اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ریاستی عناصر حقیقی مالکان کو ان کی زمینوں سے محروم کرنے کے لئے جابرانہ اختیارات استعمال کررہے ہیں۔
منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کمیشن نے کہا ’’ ڈان اخبار میں پیر کو ’’بحریہ ٹاؤن کراچی: لا محدود لالچ ‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی رپورٹ ایچ آر سی پی کو موصول ہونے والی سابقہ اطلاعات کی تائید کرتی ہے ۔ ان اطلاعات کے مطابق ملک کے سب سے بڑے ریئل اسٹیٹ ڈویلپر، جو ایشیا کی سب سے بڑی نجی ہاؤسنگ سوسائٹی ہونے پر نازاں ہیں، نے کراچی کے ضلع ملیر کے درجنوں گوٹھ میں غریب رہائشیوں سے زمین حاصل کرنے کے لئے ان پر دباؤ ڈالا اور انہیں بلیک میل کیا ، اور ان کی زمین پر زبردستی قبضہ کرلیا۔
’’ میڈیا کی رپورٹس میں ان گوٹھوں میں مشترکہ اوردیگر اراضی پرقبضے، رہائشیوں کی بے دخلی اور ایسی سرگرمیوں جن کو اغواء برائے تاوان کے علاوہ کوئی نام نہیں لیا جاسکتا، گوٹھ کے غریب رہائشیوں کے انخلاء کے لئے انتظامیہ کی جانب سے جابرانہ اختیارات کا استعمال اور پولیس کے چھاپوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان کارروائیوں کا مقصد رہائشیوں کو اپنی زمین سے دستبردار ہونے یا انہیں سستے داموں فروخت کرنے پر مجبور کرنا اور ان علاقوں پر قبضہ کرنا ہے جو ان لوگوں کی مشترکہ ملکیت ہیں۔
’’ یہ بہت سنگین الزامات ہیں اور ایچ آر سی پی امید کرتا ہے کہ ان کی فوری طور پر مکمل تحقیقات کی جائیں گی، خاص طور پر اس لیے کیونکہ زمین ہتھیانے کے سلسلے میں پولیس اور سندھ میں حکمران سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے افرادکا مبینہ کردار بھی بتایا گیا ہے۔ ایچ آر سی پی اس بات پر زور دیتا ہے کہ متاثرہ آبادی کو اس سکینڈل کی تحقیقات کرنے والے فورم تک آسان رسائی دی جائے اور اس فورم کو متاثرہ لوگوں کی تجربے اور حالت زار کو سمجھنے اوران کے مسائل کے حل کی مخلصانہ کوشش کرنی چاہئے۔
’’گوٹھ کے رہائشیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کرنے کے حوالے سے پولیس یا سیاسی جماعتوں کی ریئل اسٹیٹ ڈویلپر کے ساتھ کسی بھی قسم کی ملی بھگت کی خاص طور پر چھان بین کی جانی چاہئے۔
’’ ضلع ملیر کا یہ سکینڈل گوٹھوں کو باضابطہ بنانے کی اہمیت کی بھی نشاندہی کرتا ہے جوہزاروں لوگوں کا مسکن ہیں، اور جہاں قانونی استحقاق اور رواجی ملکیتی حقوق کی عدم موجودگی کی وجہ سے ریئل اسٹیٹ ڈویلپرز کو گوٹھ کے غریب مکینوں پر حملہ کرنے کا موقع ملا۔ اس سے اورنگی پائلٹ پراجیکٹ اورخاص طور پر اس کی سابق سربراہ پروین رحمان کی جانب سے گوٹھوں کو باضابطہ بنانے کے حوالے سے 2006ء سے 2013ء تک کی گئی جدوجہد کی اہمیت بھی نمایاں ہوتی ہے۔
’’ اس مسئلے کو اجاگر کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ زمین کے حصول کے حوالے سے غیر اخلاقی اور غیرقانونی کارروائیاں کسی ایک ریئل اسٹیٹ ڈویلپر تک محدود ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ لینڈ مافیا اور ریئل اسٹیٹ ڈویلپرز کو غریبوں کو نشانہ بناکر پیسے بنانے سے روکنے کے لئے حفاظتی اقدامات اور ریاستی ضوابط کا ہونا نہایت ضروری ہے۔
’’ غریبوں کی رہائشی ضروریات کو پورا کرنے میں ریاست کی نااہلی اور عدم دلچسپی سے سب واقف ہیں۔ اگر یہ ثابت ہو کہ یہ مقامی رہائشیوں کی تباہی اور بے دخلی کی قیمت پر بااثر لوگوں کی رہائش کے لئے زمینوں پر قبضہ کرنے لئے اپنی طاقت کا استعمال کررہی ہے تو یہ اس سے بھی بڑا المیہ ہوگا۔
’’ یہ سکینڈل اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے کہ ریاست کا کردار ایک نگران کا ہونا چاہئے جسے اپنے شہریوں کے مفاد کا خیال رکھنا چاہئے۔ شکایت اور تلافی کے موجودہ نظام کا بھی جائزہ لیا جانا چاہئے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ ان غیر قانونی سرگرمیوں کو کیوں نہیں روکا گیا جو کہ ایک اخبار کی جانب سے شائع ہونے والی خبر سے پہلے بھی کوئی راز نہیں تھیں۔
(زہرہ یوسف)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی