۔ 2020 میں این سی ایچ آر، این سی ایس ڈبلیو سال غیرفعال رہے
اسلام آباد، 23 جون۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی سالانہ رپورٹ 2020 میں انسانی حقوق کی صورت حال میں یہ افسوسناک حقیقت سامنے آئی ہے کہ کوویڈ 19 پر حکومت کا ابتدائی ردعمل غیرشفاف اور غیرمؤثر تھا: سخت لاک ڈاؤن کی اشد ضرورت کے وقت اس کے اطلاق سے گریز کیا گیا، ہسپتالوں میں کیسز کی بہتات سے نمٹنے کی استعداد نہیں تھی، اور مساجد میں عملی قواعدو ضوابط کی عدم پاسداری کے مسئلے کو حل نہیں کیا گیا تھا۔ وباء کے بحران پر قابو پانے کے لیے نیشنل کوآرڈينیشن کمیٹی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کا قیام پارلیمان یا کابینہ کی منظوری کے بغیر کیا گیا۔ البتہ، وفاقی حکومت کے احساس پروگرام کے تحت رقم کی تقسیم ان لوگوں کے لیے بڑی حوصلہ افزاء پیش رفت ثابت ہوئی جنہیں اس وقت سماجی تحفظ کے کسی مؤثر بندوبست کی شدید ضرورت تھی۔
صدارتی حکم نامے باقاعدہ ایک تواتر کے ساتھ جاری ہوتے رہے۔ حکومت مسودہ قانون کو پارلیمان میں پیش کرنے اور مسودے پر مفصّل بحث کرنے ایسے درست آئینی طریقہ کار سے انحراف کرتی رہی۔ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق اور قومی کمیشن برائے حقوق نسواں ایسے انسانی حقوق کے اداروں کا سارا سال غیرفعال رہنا لمحہ فکریہ ہے۔ مثبت پیش رفت یہ ہے کہ قومی اسمبلی نے انسانی حقوق کے کئی اہم قوانین منظور کیے مثال کے طور پر زینب الرٹ، ریسپانس اینڈ ریکوری ایکٹ اور معذوری کے شکار افراد کے حقوق کا آئی سی ٹی ایکٹ۔ وزارت برائے انسانی حقوق نے وزیراعظم کو اپنی رپورٹ میں جیلوں میں اصلاحات کے لیے سفارشات بھی پیش کیں۔
اظہار اوراجتماع کی آزادی بھی خطرات میں گھری رہی۔ 2020 میں اختلاف رائے کے لیے فضا مزيد سکڑتی دکھائی دی۔ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈيا پر نئی قدغنیں لگانے کی حکومتی کوشش، قومی احتساب بیورو کی طرف سے حزب اختلاف کے سیاست دانوں پر مقدمات جبکہ حکمران جماعت کی زیادتیوں سے چشم پوشی اور مخصوص مروجہ خیالات کے مخالف کے طور پر پہچانے جانے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے یہ حقیقت بالکل عیاں تھی۔
صحافیوں اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد خاص طور پر دباؤ کا نشانہ بنتے رہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے میڈيا گروپ کے مالک میر شکیل الرحمان کو قومی احتساب بیورو نے 35 سالہ پرانے مقدمے میں جیل میں بند رکھا اور سینئیر صحافی مطیع اللہ جان کو دن دہاڑے اغواء کیا گیا، اورعوام نے شدید غم وغصّےکا اظہار کیا تو پھر 12 گھنٹوں بعد انہیں چھوڑ دیا گیا۔ عورت مارچ کولیکٹو کو بھی مختلف حلقوں سے شدید مخالفت اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ عورت مارچ، اسلام آباد کے شرکاء کو دوران ریلی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
پسے ہوئے طبقوں جیسے کہ بچوں، عورتوں اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف جرائم کاافسوسناک سلسلہ بلاروک ٹوک جاری رہا۔انکوائری کمیشن برائے جبری گمشدگان ، عالمی کمیشن برائے ماہرین قانون (آئی سی جے) کی ملامت کا نشانہ بنا۔ آئی سی جے نے جبری گمشدگیوں میں ملوث مجرموں کے محاسبے میں انکوائری کمیشن کی ناکامی پر اسے ہدف تنقید بنایا۔
چئیرپرسن حنا جیلانی کے ایماء پر