حکومت کان کنوں کی حفاظت کو مسلسل نظرانداز کر رہی ہے: ایچ آر سی پی
لاہور، 27 اگست۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کو یہ جان کر شدید دکھ ہوا ہے کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں حکومت کان کنوں کی سلامتی کے حق کو مسلسل نظرانداز کر رہی ہے۔
24 اگست کو مرواڑ، بلوچستان میں تین کان کنوں کا قتل سال 2021 میں پیش آنے والا کم از کم ایسا دوسرا واقعہ ہے۔ اِس سال جنوری میں، مچھ میں، 11 کان کن مسلح جنگجوؤں کے ہاتھوں اغواء ہو کر گولیوں کا نشانہ بن کے ہلاک ہو گئے تھے۔ اِس کے علاوہ، اپریل میں شانگلہ، خیبرپختونخوا میں 16 کان کنوں کی باقیات کی بازیابی جنہیں ایک عشرہ قبل اغوا کر کے قتل کیا گیا تھا، ایک تلخ یاددہانی ہے کہ کان کنوں کی زندگیاں عرصہ دراز سے غیراہم سمجھی جا رہی ہیں۔ انہیں نہ صرف کام کے خطرناک حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں بلکہ دور دراز واقع کانوں کے علاقہ جات جہاں جنگجو گروپ اکثر کانوں کے مالکان سے بھتہ وصول کرتے ہیں، میں امن عامہ کی مخدوش صورتحال کے نتیجے میں سنگین خطرات سے بھی دوچار ہیں
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ اطلاعات کے مطابق، سیکیورٹی ایجنسیوں نے پیداوار پر غیرسرکاری سیکیورٹی محصول عائد کر رکھا ہے جسے کانوں کے مالکان بھتہ قرار دیتے ہیں مگر پھر بھی وہاں سیکیورٹی کی فراہمی جو کہ بطورِ سرکاری ملازم اُن کا بنیادی کام ہے، میں ناکام ہیں۔ ایچ آر سی پی نے مرواڑ واقعے کی فوری تحقیقات اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اِن حالات کے پیشِ نظر، ریاست کو چاہیے کہ وہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں کان کنوں کو کام کے محفوظ مقامات فراہم کرے اور اُن مقتولین کے خاندانوں کو معاوضہ دے جو فرقہ وارایت یا جنگجوئی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
چئیرپرسن حنا جیلانی