ا2018 ء میں، بلوچستان میں بچے، کان کُن اب بھی غیر محفوظ

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے اپنی سالانہ رپورٹ، انسانی حقوق کی صورتحال 2018ء، کی صوبائی تقریب رونمائی کےموقع پر اس بات کا نوٹس لیا ہے کہ عام انتخابات والےبرس اگر انسانی حقوق کے معاملات پر پیش رفت اور ان کے تحفظ کو مکمل طور پر پسِ پشت نیہں بھی ڈالا گیا تو انہیں تعطل کا شکار ضرور کیا گیا۔ انتخابات بذات خود قبل از انتخاب ہونے والی ساز باز اور ووٹوں کی دھاندلی جیسے الزامات، جن کا مکمل ازالہ نہیں ہوسکا نیز تشدد کے بعض خوفناک واقعات کی لیپیٹ میں رہے، خاص طورپر مستونگ اور کوئٹہ میں، جن میں کم از کم 180 افراد ہلاک ہوئے۔

رپورٹ میں یہ مشاہدہ کیا گیا کہ بلوچستان میں فرقہ وارانہ تشدد میں غیر متناسب طور پر شیعہ ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا گیا۔ کوئٹہ میں، وہ ہزارہ علاقوں تک محدود ہیں؛ ان کی نقل و حرکت کےعلاوہ بازاروں اور اسکولوں تک رسائی محدود ہے۔ ریاست نے اس حوالےسے جو اقدامات کیے ہیں وہ سکیورٹی قافلوں کا قیام ہےجن میں برادری کے لوگوں کو لے جایا جاتا ہے جب وہ ہزارہ علاقوں سے باہر نکلتے ہیں، لیکن یہ اقدام ان کی سیکیورٹی کی ضمانت نہیں دیتا اور یہ صوبے میں جاری فرقہ وارانہ تشدد کا قلیل المدت حل ہے۔

بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن اور بلوچستان انسانی حقوق کونسل کا حوالہ دیتے ہوئے، ایچ آر سی پی کی رپورٹ کہتی ہے کہ 2018ء میں جبری گمشدگیوں کی کم از کم 541 جزوی اطلاعات سامنے آئیں۔ اگست 2018ء میں، جبری گمشدگیوں سے متعلق تحقیقاتی کمیشن نے کہا کہ ‘بلوچستان میں لاپتا افراد کے’محض 131’ مقدمات زیر سماعت تھے۔ جبری گمشدگیوں پر جامع اعدادوشمار کی کمی—اور بلوچستان میں میڈیا کے پاس ان واقعات کی رپورٹنگ کا بظاہر اختیار نہ ہونا–  اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ریاست اس سنگین مسئلے کے حل کا سیاسی عزم نہیں رکھتی۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غذائیت کی کمی صوبے کے بچوں کی صحت کے لیے اب بھی ایک سنگین خطرہ ہے جس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ نومبر 2018ء  میں صوبائی وزیر صحت نے بلوچستان میں غذائی ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔ اگرچہ درینہ غذائیت کی کمی پر قابو پانے کے لیے ایک نیوٹریشن سیل قائم کیا گیا تھا، ریاست کو بلوچستان کے غیرمحفوظ ترین گروہوں میں سے ایک کے تحفظ کے حوالے سے اپنے اقدامات کو ترجیح دینا ہوگی اور ان میں استحکام لانا ہوگا۔

بلوچستان میں کانوں کے حادثات میں خطرناک اضافے کی نشاندہی کرتے ہوئے، ایچ آر سی پی کی رپورٹ نے صرف 2018ء میں کم از کم تین بڑے حادثات ریکارڈ کیے ہیں جن میں کم از کم 57 کان کُن ہلاک ہوئے۔ رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ ستمبر میں سپریم کورٹ نے بلوچستان حکومت کو ایک پٹیشن کا جواب جمع کرانے کو کہا تھا۔ اس پٹیشن میں 2010ء سے اب تک 300 سے زائد کان کُنوں کی اموات کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس کے باوجود، بلوچستان کی کانوں میں پیشہ ورانہ صحت اور تحفظ کی نگرانی اور نفاذ کے لیے کسی قسم کے ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔

ڈاکٹرمہدی حسن

چیئرپرسن