پریس ریلیز

سب کو سیاسی عمل میں شریک ہونے کے ایک جیسے مواقع فراہم کیے جائیں: ایچ آرسی پی

لاہور، 7 اپریل 2018: پاکستان کے سیاسی حالات میں آئے روز ہونے والے اتارچڑھائو کو سامنے رکھتے ہوئے، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق( ایچ آرسی پی) نے پرزورمطالبہ کیا ہے کہ رواں برس ہونے والے انتخابات کے آزادانہ، شفاف اوربروقت انعقاد کو ہرصورت یقینی بنایا جائے۔ اپنے بتیسویں سالانہ عمومی اجلاس کے اختتام کے موقع پرجاری ہونے والے ایک بیان میں کمیشن نے کہا کہ تمام فریقین کو سیاسی عمل کا حصہ بننے کا مساوی موقع فراہم کیا جائے اورحوالے سے کسی بھی ریاستی ایجنسی کی طرف سے کسی قسم کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔

ادارے نے یہ بھی کہا کہ” خاص اقدامات کیے جائیں تاکہ عورتیں اورمذہبی اقلیتیں، دونوں، بغیرکسی خوف، دبائو اورجبرکے انتخابات میں آزادانہ طورپراپنا حق رائے دہی بھی استعمال کرسکیں اوربطورامیدوارانتخابی دوڑمیں بھی شریک ہو سکیں۔ اورپولنگ کا موجودہ نظام جن لوگوں کو ووٹ ڈالے کا عملی موقع فراہم کرنے سے قاصرہے ان کے لیے گردشی پولنگ اسٹیشن قائم کیے جائیں”۔

ایچ آرسی پی نے کہا ہے کہ اسے 18 ترمیم اورنیشنل کمیشن ایوارڈ 2009 کو واپس لینے کی تجاویز پربڑی تکلیف ہوئی ہے۔ ایسا کوئی بھی اقدام وفاق کے وقارکو شدید نقصان سے دوچارکرے گا: ریاست کو پیچھے مڑنے کی بجائے زیادہ بڑے وفاق کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے۔

ایچ آرسی پی کو یہ دیکھ کربہت تشویش ہوئی ہے کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ گذشتہ برس بھی جاری رہا اوران میں ملوث لوگوں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ کمیشن نے کہا کہ گمشدہ افراد کی بازیابی میں انکوائری کمیشن برائے جبری گمشدگاں کی ناکامی ناقابل قبول ہے اورہمارا یہ مطالبہ ہے کہ پاکستان تمام افراد کو جبری گمشدگیوں سے تحفظ فراہم کرنے کے عالمی میثاق پردستخط کرے۔ ” جس آزادی کے ساتھ لوگوں کو اٹھا لیا جاتا ہے، خاص طورپررضا محمود جیسے سول سوسائٹی کے مخلص کارکنوں کو اُٹھا کر غائب کرنے کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے۔ ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ اِس مقصد کے لیے لاپتہ افراد کے کمیشن 2010 کی سفارشات پر عملدرآمد کیا جائے۔

ماورائے عدالت ہلاکتوں میں اضافہ، خاص طور پر سندھ میں انتہائی تشویش ناک ہے اور نقیب اللہ محسود کا قتل اس سلسلے کی محض ایک کڑی تھی۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے والوں کو حاصل کُھلی چھٹی ختم کی جائے۔

ایچ آر سی پی نے سول سوسائٹی کو ریاستی مماملات سے باہر رکھنے کے بڑھتے ہوئے رجحان پر بھی تشویش ظاہر کی ہے۔ “ترقی پسند سوچ کے لیے سکڑتی ہوئی فضا خاص طور پر پریشانی کا سبب ہے۔ تنظیم نے مزید کہا کہ این او سی کے اجراءکا اختیار بظاہر سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں میں ہونا اور ڈونرز کے فنڈز کا اُن علاقوں میں نہ جا سکنا جہاں اُن کی سب سے زیادہ ضرورت ہے مثال کے طور پر بلوچستان کے کشیدگی زدہ علاقے اور وفاق کے زیر اہتمام علاقہ جات (فاٹا) کا مطلب یہ ہے کہ انسانی حقوق پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

“انتہا پسند جماعتوں کو، خاص طور پر تحریک لبیک یا رسول اللہ کو مرکزی دھارے میں لانے” جیسے اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے ایچ آر سی پی نے کہا کہ ملک انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیموں پر پابندی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے مطالبات پر عملدرآمد کرنے میں مخلص نہیں ہے۔

ایچ آر سی پی نے کہا ، ”مشال کے متعلق ہجوم کے ہاتھوں قتل کے مقدمے میں عدالت سے رہائی پانے والے 26 کو ملنے والے والہانہ استقبال سے اندازہ ہوتا ہے کہ مذہبی اور انتہا پسند تنظیموں کو کام کرنے کی کس قدر آزادی حاصل ہے۔“

ایچ آر سی پی نے کہا ہے کہ ”خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد کی لہر میں اضافے سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ چھ سالہ بچی زینب کے ساتھ پیش آنے والے ناقابل بیان واقعے جیسے انفرادی واقعات پر سامنے آنے والے وقتی غم و غصّے سے اِس برائی پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔“ ”تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ کمزور طبقوں کے سلامتی و شخصی کے حق کو معاشرتی و حکومتی سطح پر یقینی بنایا جائے۔

ایچ آر سی پی نے ملک بھر کے مزدوروں و کسانوں کے حقوق کی ایک با ر پھر حمایت کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ کوئلے کی کانوں میں ہونے والے حالیہ جانی نقصانات سے ایک بار پھر واضح ہو گیا ہے کہ ملک کے مزدوروں کے تحفظ کے قوانین اور پالیسیاں کام کار کی سازگار فضا کے اُن شرائط پر پورا نہیں اُترتیں جو عالمی ادارے برائے محنت (آئی ایل او) نے تجویز کی تھیں۔ ان مسائل کے ساتھ آئے روز بڑھتی ہوئی مہنگائی سے اندازہ ہوتا ہے کہ مزدوروں کی انتہائی مشکل سے گزر بسر کا سلسلہ جاری ہے اور اُن کے حالات میں بہتری کی کوئی اُمید نظر نہیں آ رہی۔

خاص طور پر گلگت بلتستان میں ، نوجوان خواتین کی جانب سے خودکشیوں میں تشویش ناک اضافے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے۔ ایچ آر سی پی نے کہا کہ نوجوان لوگوں کی خواہشات اور ریاست اور معاشرے کی جانب سے انہیں ایک محفوظ اور بھرپور زندگی گزارنے کے لیے فراہم کیے گئے مواقع میں واضح طور پر کوئی ربط موجود نہیں۔

ایچ آر سی پی نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک حالیہ فیصلہ سخت تشویش کا باعث ہے جس میں عدالت نے تجویز کیا ہے کہ سرکاری و نیم سرکاری اداروں، بشمول مسلح افواج، عدلیہ اور سول سروسز کی ملازمت کے لیے درخواست دینے والوں پر یہ لازم قرار دیا جائے کہ وہ اپنے عقیدے کا اعلان کریں۔ اس فیصلے کہ نہ صرف احمدی برادری بلکہ تمام مذہبی اقلیتوں پر شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ایسی شرائط محض مذہبی اقلیتوں کے خلاف منظم امتیازی سلوک میں اضافہ کریں گی۔
اگر حکومت نے مذہبی انتہا پسندوں کی حمایت کی پالیسی جاری رکھی تو پاکستان اپنی مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کی توقع نہیں کرسکتا۔ کوئٹہ میں ایک چرچ پر حالیہ حملہ، لاہور میں پطرس مسیح کے خلاف توہین مذہب کے الزامات، مٹھی میں دو ہندو بھائیوں کا قتل، اور ہزارہ اور احمدی برادری کے افراد کی ہلاکتیں مذہبی انتہا پسندوں کو حاصل آزادی کی عکاسی کرتی ہیں۔ مذہب کو ہتھیار بنانے کا سلسلہ، چاہے یہ ریاستی اداروں کی جانب سے ہو یا پھر غیر ریاستی عناصر اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے، بندہونا چاہئے۔

بڑھتی ہوئی عدالتی فعالیت پراپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ایچ آر سی پی نے کہا کہ یہ لوگوں کے بنیادی حقوق اور ملک کی پہلے سے ہی کمزور جمہوریت سے تصادم کے مترادف ہے۔اخلاقیات کی مبہم تشریحات پر انحصار کرنے کی بجائے،عدلیہ کو مروجہ آئینی اور قانونی اصولوں کی بنیاد پر عوامی اہمیت کے مقدمات کے فیصلے کرنے چاہئیں۔ ایچ آر سی پی نے مزید کہا کہ گزشتہ سال از خود نوٹسز کے حد سے زیادہ استعمال نے جمہوریت کو کسی بھی طرح مضبوط نہیں کیا۔
گلگت بلتستان کے بدستورگومگو کی صورتحال‘ میں پھنسے ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے، ایچ آر سی پی نے کہا کہ’’ جب تک اسے وفاق میں شامل نہیں کیا جاتا اس کے شہری ان تمام بنیادی حقوق سے لطف اندوز نہں ہوسکیں گے جو ملک کے دیگر شہریوں کو حاصل ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کا ہر شہری انہی آئینی آزادیوں سے لطف اندوز ہو جو پاکستان کے دیگر شہریوں کو حاصل ہیں۔‘‘
جیو ٹی وی کی حالیہ بندش، صحافیوں کی مسلسل ہراسانی، کوئٹہ پریس کلب کی بندش اور شہر میں اخبارات کی سرکولیشن پرپابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے ایچ آر سی پی نے اس حقیقت کی نشاندہی کی کہ اظہار رائے کی آزادی حملوں کی زد میں ہے۔

ایچ آر سی پی نے کہا کہ ترقیاتی منصوبوں کو غیر ملکیوں کے دائرہ کار میں رکھنے کا رجحان قابل قبول نہں ہے اور اس حوالے سے مقامی لوگوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ تمام ترقیاتی منصوبے، بشمول وہ جو سی پیک کا حصہ ہیں شفاف ہونے چاہئیں اور ان کی منصوبہ بندی اور انجام دہی اس طرح سے کی جانی چاہئے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا باعث نہ بنیں۔ مثال کے طور پر گوادر میں جاری چینی منصوبوں میں شفافیت کی کمی تشویش کا باعث ہے۔ علاوہ ازیں، ایسے سوالات پوچھنا عوامی مفاد میں ہے ، لہٰذا انہیں ’ریاست مخالف‘ یا ’پاکستان مخالف‘ نہیں سمجھنا چاہئے۔
’’ایچ آر سی پی پشتون تحفظ تحریک کی اس بنیاد پر حمایت کرتا ہے کہ” تمام لوگوں اپنی تکالیف کے پرامن اظہار کا حق حاصل ہے۔ تحریک کی جانب سے کیے گئے مطالبات ریاست اور لوگوں کے درمیان قطع تعلق کی عکاسی کرتے ہیں۔ ہم حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ ان تحفظات پر توجہ دے اور پشتونوں کے علاوہ دیگر لوگوں کے ’انجمن سازی کے حق‘ میں مداخلت سے اجتناب کرے۔”
ایچ آر سی پی نے کہا کہ اسے اس بات کا افسوس ہے کہ ریاست نے غیر ملکی جیلوں، خاص طور پر سعودی عرب، خلیج ریاستوں اور ہندوستان میں قید پاکستانیوں کی حالت زار پرتوجہ نہیں دی۔ اس نے کہا کہ ریاست کو انہیں قانونی امداد اور دیگر معاونت فراہم کرنی چاہئے۔

ڈاکٹر مہدی حسن

چیئر پرسن