پریس ریلیز
لاہور
08-اکتوبر، 2017
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے کہا ہے کہ ملک میں ناقص نظم ونسق اور عوام کے حقوق سے لاتعلقی نے لوگوں میں شدید غم وغصے اوراحساس محرومی کو جنم دیا ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اتوار کو اپنی انتظامی کونسل کے اجلاس کے اختتام پر، کمیشن نے کہا: ”لوگ تمام ریاستی اداروں سے شدید مایوس ہیں جوکہ ایچ آر سی پی کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ ہمارے خیال میں اس صورتحال سے ہر فرد کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ نظم ونسق میں شدید خامیاں اور سرکاری مالیاتی وسائل کے اخراجات کرنے کے حوالے سے ناقص ترجیحات کو بہتر کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ملک میں پھیلے انتشار کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جن کے اقدامات سے سویلین حکمرانی کو نقصان پہنچا اور غیر جمہوری قوتوں کے کردار کو اور زیادہ وسعت ملی۔ اس صورتحال سے پاکستان کے کئی مسائل سے توجہ ہٹ رہی ہے جو دن بدن زیادہ سنگین صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔
”جبری گمشدگیوں کا رجحان عام ہوگیا ہے۔ عدالتی اور انکوائری کمیشن کی کوششیں ناقص اور غیر موثر ثابت ہوئی ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی اور ہائی کورٹس میں خصوصی بینچ قائم کئے جائیں تاکہ یہ ثابت ہوکہ اس مسئلے کو اتنی ہی فوری اور سنجیدہ توجہ دی گئی ہے جتنی اسے دی جانی چاہیے تھی۔ انکوائری کمیشن برائے جبری گمشدگان کی کئی برس قبل مکمل ہونے والی رپورٹ کو ابھی تک پبلک نہیں کیا گیا۔ اسے فوری طور پر جاری کیا جائے اور اس کی سفارشات پر عملدرآمد کیا جائے۔
اپنی شفافیت ثابت کرنے کے لیے حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹیئر، خاص طور پر اظہار رائے کی آزادی کے خصوصی رپوٹیئر اور ورکنگ گروپ برائے جبری گمشدگی کو دورہ پاکستان کی دعوت دے۔
”یہ ایک کھلی حقیقت یہ ہے کہ بعض اداروں اور افراد کو جوابدہی سے مکمل استثناء حاصل ہے جبکہ بعض مخصوص افراد کو ہر قدم پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایچ آر سی پی کا مطالبہ ہے کہ سب کا بلاامتیاز احتساب ہو اور اس حوالے سے تمام قانونی تقاضوں کی پیروی کی جائے۔
”مذہبی انتہا پسندوں کو مرکزی دھارے میں لانے کی حالیہ کوششیں شدید تشویش کا باعث ہیں۔ مزید برآں،اس سے مجموعی طور پر پورے معاشرے میں شدت پسند خیالات پروان چڑھ رہے ہیں۔
”تضحیک مذہب قانون کے ناجائز استعمال کا سلسلہ جاری وساری ہے اور اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ شہریوں کو اس قانون کے ناجائز استعمال سے تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری سے صرف نظر نہ کرے۔
”ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عقیدے کی بنیاد پر تشدد، دھمکیوں اور امتیازی سلوک کا خاتمہ حکام کی ترجیحات کا حصہ نہیں۔ تھرپارکر میں مذہب کی جبری تبدیلی کے متعدد واقعات بھی تشویش کا باعث ہیں، جہاں حالیہ برسوں میں مذہبی مدرسوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
”سول سوسائٹی اور صحافیوں کے لیے حالات تیزی سے ناسازگار ہورہے ہیں۔ کئی بلاواسطہ اور بالواسطہ کارروائیاں کی گئیں ہیں جن کا مقصد سول سوسائٹی کی تنظیموں کے کام میں مشکلات پیدا کرنا ہے۔ان کے لیے خوف کی فضا قائم کی گئی ہے۔ سول سوسائٹی کے کارکنوں کوجبری گمشدہ کرنے سے لے کر ان کی کردار کشی کی مہمیں چلانے تک، ہر غیر قانونی اقدام کیا گیاہے تاکہ سول سوسائٹی کو خیالات کے آزادانہ اظہار سے روکا جاسکے۔ اظہار رائے کی آزادی کا گلا گھونٹنے کے لیے سائبر کرائم قانون ایک اضافی آلے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
”کئی فوجی آپریشنوں اور دہشت گردوں پر فتح پانے کے دعوؤں کے باوجود، لوگوں کو وفاق کے زیر انتظام علاقوں (فاٹا)تک آزادانہ رسائی حاصل نہیں۔ بنوں۔میران شاہ شاہراہ پر ہر اتوار کو کرفیو کا نفاذ لوگوں کو پہنچنے والی تکلیف کی ایک واضح مثال ہے۔
”اندرون ملک نقل مکانی کے بڑے چیلنجز سے نبٹنے کے لیے باضابطہ انتظامات کا مکمل فقدان ہے۔ اندرون ملک نقل مکانی کرنے والے افراد (آئی ڈی پیز) نقل مکانی کے تمام مراحل کے دوران زیادہ تر اپنے ہی رحم وکرم پر رہے ہیں۔ ان کی رہائش اور روزگار کے بندوبست میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔ آئی ڈی پیز کوعارضی طور پر نقل مکانی کرنے والے افراد (ٹی ڈی پیز) قرار دینے سے ہی مسائل حل نہیں ہوجائیں گے۔
پاکستان کو درپیش سنگین معاشی بحران تقاضہ کرتا ہے کہ انتظامیہ، پارلیمان، عدلیہ اور فوج سمیت تمام اداروں کو نمودونمائش ترک کرنی چاہیے اور کم ازکم کچھ برسوں کے لیے بہت زیادہ کفایت شعاری برتنی چاہیے اور اپنے اخراجات میں نمایاں کمی کرنی چاہیے۔
”چین۔ پاکستان معاشی راہداری سے منسلک شدید خدشات ابھی بھی ازالہ طلب ہیں۔ شفافیت کو یقینی بنانے کے علاوہ، اراضی کے حصول کے طریقہ کار اور معاوضے کے حوالے سے سامنے آنے والی شکایات پر بھی توجہ دی جائے۔ غیر ملکیوں کو اراضی فروخت کرنے کے طریقہ کار پر بھی نظرثانی کی جائے۔ سی پیک کے نفاذ کی منصوبہ سازی میں انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کاخاص خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔
ڈاکٹر مہدی حسن
چیئر پرسن ایچ آرسی پی
کونسل اراکین