پریس ریلیز
لاہور
30-اگست2017
لاہور
30-اگست2017
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے بدھ کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان جبری گمشدگیوں کی غیر قانونی سرگرمی کے خاتمے کے لیے فوری ٹھوس اقدامات کرے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔
میڈیا کو جاری کیے گئے ایک بیان میں ایچ آر سی پی نے کہا: ’’جبری گمشدگیوں کے متاثرین کے عالمی دن، 30اگست، کی پاکستان کے لیے خاص اہمیت ہے کیونکہ ملک میں لاپتا افراد کا مسئلہ سنگین ہوچکا ہے۔
’’یہ دن ہمیں اس بات کی یاددہانی کراتا ہے کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے متعدد واقعات منظر عام پر آنے کے باوجود کسی ایک فرد کو بھی اس سنگین جرم کے لیے سزا نہیں دی جاسکی۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی انتہائی تشویش ناک ہے کہ جبری گمشدگیاں پاکستان میں آج بھی جاری ہیں ، جیسا کہ حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے جبری گمشدگیوں سے متعلق تحقیقاتی کمیشن (سی آئی ای ڈی) کی فراہم کردہ معلومات سے ظاہر ہوتا ہے۔
’’ جبری گمشدگی کے واقعات کی مجموعی تعداد سے متعلق مختلف اعداد و شمار موجود ہیں۔ لیکن محتاط اندازے بھی یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جبری گمشدگیوں کے واقعات کی ایک بڑی تعداد اب بھی حل طلب ہے۔
’’سی آئی ای ڈی کو رپورٹ کیے گئے واقعات یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ ملک بھر میں جاری ہے اور یہ سرگرمی ان علاقوں میں بھی پھیل چکی ہے جہاں پہلے ایسے واقعات رونما نہیں ہوتے تھے۔ ان علاقوں میں صوبہ سندھ بھی شامل ہے جہاں عام طور پر سیاسی کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ سندھ میں جبری گمشدیوں کے خلاف آواز اٹھانے والے بھی اس کا نشانہ بن رہے ہیں۔
پنجاب میں بھی زینت شہزادی جنہوں نے جبری گمشدگی کے شکار لوگوں کے لیے آواز اٹھائی خود اس جرم کا شکار ہوئیں۔ اگست 2015ء میں لاہور میں اپنے گھر کے قریب سے غائب ہونے کے بعد وہ آج تک لاپتا ہیں۔
’’ ایچ آر سی پی اس بات پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ جبری یا غیر ارادی گمشدگیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ (ڈبلیو جی ای آئی ڈی)نے 2012ء میں اپنے پاکستان کے دورے سے منسلک اور بعدازاں جو سفارشات پیش کی تھیں حکومت نے ان پر عمل درآمد نہیں کیا۔
’’پاکستان نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں اپنے دوسری عالمی سلسلہ وارجائزے (یو پی آر)کے عمل کے دوران ایک سفارش (122.20) کو تسلیم کیا تھا کہ ضابطہ تعزیرات پاکستان (پی پی سی)میں جبری گمشدگیوں کو ایک باقاعدہ جرم قرار دیاجائے گا۔ تاہم، جبری گمشدگیوں کو ایک واضح اور علیحدہ جرم قرار دینے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔ جبری گمشدگیوں کے واقعات میں پولیس کو موصول ہونے والی درخواستیں اب بھی پی پی سی کی ان قانونی دفعات کے تحت درج کی جارہی ہیں جن کا تعلق اغواء یا غیر قانونی حراست سے ہے۔ دیگر سفارشات جنہیں پاکستان نے تسلیم تو کیا لیکن ان پر عمل درآمد نہیں کیا ، اُن میں سی آئی ای ڈی کو مضبوط بنانا اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا بھی شامل ہیں۔
’’ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مزید تاخیر کیے بغیر ڈبلیو جی ای آئی ڈی کی تمام سفارشات پر عمل درآمد کرے اور یو پی آر کیسلسلے میں کیے گئے وعدوں، بالخصوص جبری گمشدگیوں سے متعلق وعدوں کو پورا کرے۔
’’ ایچ آر سی پی وزیراعظم سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ پاکستان کی جانب سے تسلیم کی گئیں ڈبلیو جی ای آئی ڈی کی تمام سفارشات اور عالمی سلسلہ وار جائزے کے دوران تسلیم کی گئیں متعلقہ سفارشات پر عمل درآمد کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں۔ ہم خاص طور پر ان پر زور دیتے ہیں کہ وہ:
* فوجداری قانون کے تحت جبری گمشدگیوں کو ایک واضح اور الگ جرم قرار دلانے سے متعلق فوری اور موثر اقدامات کریں۔
* تمام ریاستی ایجنسیوں کو حکم دیں کہ وہ تمام لاپتا افراد کی بازیابی میں تعاون کریں اور شہریو ں کو اغواء کرنے ، انہیں خفیہ حراستی مراکز میں رکھنے یا قتل کرنے اور ان کی نعشیں پھینکنے کا سلسلہ بند کریں۔
* جبری گمشدگی کے ذمہ داروں کے لیے عملی طور پر سزا سے استثنا کا خاتمہ کریں۔ جبری گمشدگیوں میں ملوث کسی بھی ریاستی ادارے کے خلاف کارروائی کے جلد از جلد آغاز سے لوگوں کو میں انصاف کے حصول کی امید بڑھے گی۔
* تمام افراد کے جبری گمشدگیوں سے تحفظ کے عالمی معاہدے کی توثیق کریں۔
* لاپتا افراد کے خاندانوں کے لیے جو کئی سالوں سے اذیت میں مبتلا ہیں معاوضے کی ادائیگی کا بندوبست کریں ۔
* اس بات کو یقینی بنائیں کہ حکومت ایسے قوانین بنانے سے گریز کرے جن سے خفیہ، غیر تسلیم شدہ اور رابطے سے محروم حراست کو قانونی جواز ملے۔
’’ایچ آر سی پی اس بات پرزور دیتا ہے کہ جبری گمشدگیاں قانون کی حکمرانی کے عالمی اصولوں کی خلاف ورزی ہیں جن کی ایک مہذب معاشرے میں کوئی جگہ نہیں، یہ ملک کی بدنامی کا باعث بنی ہیں اور ان کا فوری خاتمہ کیا جانا چاہئے۔‘‘
میڈیا کو جاری کیے گئے ایک بیان میں ایچ آر سی پی نے کہا: ’’جبری گمشدگیوں کے متاثرین کے عالمی دن، 30اگست، کی پاکستان کے لیے خاص اہمیت ہے کیونکہ ملک میں لاپتا افراد کا مسئلہ سنگین ہوچکا ہے۔
’’یہ دن ہمیں اس بات کی یاددہانی کراتا ہے کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے متعدد واقعات منظر عام پر آنے کے باوجود کسی ایک فرد کو بھی اس سنگین جرم کے لیے سزا نہیں دی جاسکی۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی انتہائی تشویش ناک ہے کہ جبری گمشدگیاں پاکستان میں آج بھی جاری ہیں ، جیسا کہ حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے جبری گمشدگیوں سے متعلق تحقیقاتی کمیشن (سی آئی ای ڈی) کی فراہم کردہ معلومات سے ظاہر ہوتا ہے۔
’’ جبری گمشدگی کے واقعات کی مجموعی تعداد سے متعلق مختلف اعداد و شمار موجود ہیں۔ لیکن محتاط اندازے بھی یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جبری گمشدگیوں کے واقعات کی ایک بڑی تعداد اب بھی حل طلب ہے۔
’’سی آئی ای ڈی کو رپورٹ کیے گئے واقعات یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ ملک بھر میں جاری ہے اور یہ سرگرمی ان علاقوں میں بھی پھیل چکی ہے جہاں پہلے ایسے واقعات رونما نہیں ہوتے تھے۔ ان علاقوں میں صوبہ سندھ بھی شامل ہے جہاں عام طور پر سیاسی کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ سندھ میں جبری گمشدیوں کے خلاف آواز اٹھانے والے بھی اس کا نشانہ بن رہے ہیں۔
پنجاب میں بھی زینت شہزادی جنہوں نے جبری گمشدگی کے شکار لوگوں کے لیے آواز اٹھائی خود اس جرم کا شکار ہوئیں۔ اگست 2015ء میں لاہور میں اپنے گھر کے قریب سے غائب ہونے کے بعد وہ آج تک لاپتا ہیں۔
’’ ایچ آر سی پی اس بات پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ جبری یا غیر ارادی گمشدگیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ (ڈبلیو جی ای آئی ڈی)نے 2012ء میں اپنے پاکستان کے دورے سے منسلک اور بعدازاں جو سفارشات پیش کی تھیں حکومت نے ان پر عمل درآمد نہیں کیا۔
’’پاکستان نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں اپنے دوسری عالمی سلسلہ وارجائزے (یو پی آر)کے عمل کے دوران ایک سفارش (122.20) کو تسلیم کیا تھا کہ ضابطہ تعزیرات پاکستان (پی پی سی)میں جبری گمشدگیوں کو ایک باقاعدہ جرم قرار دیاجائے گا۔ تاہم، جبری گمشدگیوں کو ایک واضح اور علیحدہ جرم قرار دینے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔ جبری گمشدگیوں کے واقعات میں پولیس کو موصول ہونے والی درخواستیں اب بھی پی پی سی کی ان قانونی دفعات کے تحت درج کی جارہی ہیں جن کا تعلق اغواء یا غیر قانونی حراست سے ہے۔ دیگر سفارشات جنہیں پاکستان نے تسلیم تو کیا لیکن ان پر عمل درآمد نہیں کیا ، اُن میں سی آئی ای ڈی کو مضبوط بنانا اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا بھی شامل ہیں۔
’’ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مزید تاخیر کیے بغیر ڈبلیو جی ای آئی ڈی کی تمام سفارشات پر عمل درآمد کرے اور یو پی آر کیسلسلے میں کیے گئے وعدوں، بالخصوص جبری گمشدگیوں سے متعلق وعدوں کو پورا کرے۔
’’ ایچ آر سی پی وزیراعظم سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ پاکستان کی جانب سے تسلیم کی گئیں ڈبلیو جی ای آئی ڈی کی تمام سفارشات اور عالمی سلسلہ وار جائزے کے دوران تسلیم کی گئیں متعلقہ سفارشات پر عمل درآمد کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں۔ ہم خاص طور پر ان پر زور دیتے ہیں کہ وہ:
* فوجداری قانون کے تحت جبری گمشدگیوں کو ایک واضح اور الگ جرم قرار دلانے سے متعلق فوری اور موثر اقدامات کریں۔
* تمام ریاستی ایجنسیوں کو حکم دیں کہ وہ تمام لاپتا افراد کی بازیابی میں تعاون کریں اور شہریو ں کو اغواء کرنے ، انہیں خفیہ حراستی مراکز میں رکھنے یا قتل کرنے اور ان کی نعشیں پھینکنے کا سلسلہ بند کریں۔
* جبری گمشدگی کے ذمہ داروں کے لیے عملی طور پر سزا سے استثنا کا خاتمہ کریں۔ جبری گمشدگیوں میں ملوث کسی بھی ریاستی ادارے کے خلاف کارروائی کے جلد از جلد آغاز سے لوگوں کو میں انصاف کے حصول کی امید بڑھے گی۔
* تمام افراد کے جبری گمشدگیوں سے تحفظ کے عالمی معاہدے کی توثیق کریں۔
* لاپتا افراد کے خاندانوں کے لیے جو کئی سالوں سے اذیت میں مبتلا ہیں معاوضے کی ادائیگی کا بندوبست کریں ۔
* اس بات کو یقینی بنائیں کہ حکومت ایسے قوانین بنانے سے گریز کرے جن سے خفیہ، غیر تسلیم شدہ اور رابطے سے محروم حراست کو قانونی جواز ملے۔
’’ایچ آر سی پی اس بات پرزور دیتا ہے کہ جبری گمشدگیاں قانون کی حکمرانی کے عالمی اصولوں کی خلاف ورزی ہیں جن کی ایک مہذب معاشرے میں کوئی جگہ نہیں، یہ ملک کی بدنامی کا باعث بنی ہیں اور ان کا فوری خاتمہ کیا جانا چاہئے۔‘‘
(ڈاکٹر مہدی حسن)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی