پریس ریلیز
لاہور
08اگست، 2016
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے پیر کو کوِئٹہ میں وکلاء کے خلاف دو حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ جن میں کم ازکم 53 افراد جاں بحق ہوئے۔ کمیشن نے حکومت کی جانب سے شہریوں کے تحفظ کے لیے دہشت گردی اور منظم جرائم کے انسداد کے لیے موثر اقدامات نہ کرنے پر بھی شدید افسوس کا اظہار کیا ہے۔
پیر کو جاری کئے گئے اپنے بیان میں کمیشن نے کہا: ایچ آر سی پی بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کے قتل اور کوئٹہ سول ہسپتال میں بم دھماکے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے جس میں اب تک 53 انسانی جانیں گئیں اور 50 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد وکلاء کی ہے اس کے علاوہ صحافتی تنظیموں کے کم ازکم 2 کارکن بھی ہلاک ہوئے ہیں اور کئی ایک زخمی بھی ہوئے ہیں۔
وکلاء پر اس طرح کا منظم حملہ قطعی طور پر ناقابل برداشت اور قابل مذمت ہے۔ کوئٹہ میں اس سانحہ کے بارے میں ارباب اقتدار کے مذمتی بیان یا اسے محض کسی غیر ملکی خفیہ ادارے کی کارستانی قرار دینا نہ تو کافی ہے اور نہ ہی کسی مسئلہ کا حل۔ ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام شہریوں کی زندگیوں کی حفاظت کرے خواہ ان کے خون کے درپے کوئی بھی ہو۔
لوگ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ عوام کی حفاظت پر مامور ادارے اس وقت کہاں تھے جب اس سانحے کے منصوبہ ساز اور اس پر عملدرآمد کرنے والے خواہ وہ غیر ملکی ہوں یا پاکستانی اپنی مکروہ کارروائی میں مصروف تھے۔ حکومت پیر کے ہولناک واقعات کو ناقص حفاظتی اقدامات کہہ کراپنی ذمہ داری سے عہدہ براہ نہیں ہوسکتی اس کے لیے لازم ہے کہ وہ پیر کے واقعات کو روکنے میں اپنی ناکامی کی وجوہات کی وضاحت کرے۔ عوام کو یہ بھی بتایا جانا چاہئے کہ حکومت انسداد دہشت گردی کے نام پر کی جانے والی منصوبہ بندی کے تحت اس امر کو کیسے یقینی بنائے گی کہ دہشت گردی کے ایسے واقعات کی واقعی روک تھام کی جاسکے۔ بلوچستان میں شہریوں کی حفاظت پر توجہ دینا خاص طور پر اس لیے ضروری ہے کیونکہ صوبے میں حال ہی میں پرتشدد واقعات میں کسی حد تک کمی نے یہ امید پیدا کی تھی کہ شاید حالات معمول کی طرف واپس لوٹ آئیں۔
یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ پیر کا حملہ جس میں بے گناہ شہریوں کی اتنی بڑی تعداد میں ہلاکت ہوئی، ایک ہسپتال، جو کہ حالت جنگ میں بھی حملوں سے محفوظ تصور کیے جاتے ہیں، پیش آیا۔ ایسے اندوہناک سانحے کے بعد حکومت کے تمام انتہا پسندوں اور منظم مجرموں کے خلاف اقدامات کے واضح عزم کا اظہار محض الفاظ نہیں بلکہ مؤثر کارروائی کی صورت میں نظر آنا چاہیے۔
کوئٹہ میں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ کسی حملے کے متاثرین کو ہسپتال لایا گیا ہو اور بعدازاں ہسپتال کو نشانہ بنایا گیا۔ جون 2013 میں سردار بہادر خاں خواتینیونیورسٹی کی طالبات کو نشانہ بنانے کے بعد بولان میڈیکل کالج ہسپتال کو اُس وقت فائرنگ اور بموں کا نشانہ بنایا گیا ہو جب زخمیوں کو وہاں علاج کے لیے لایا گیا تھا۔ ایسے حالات میں ہسپتال میں مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکامی شدید قابل مذمت ہے۔
ایچ آر سی پی کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ عوامی وسائل تمام شہریوں کی زندگی کے تحفظ پر صرف کیے جائیں۔ کوئٹہ یا ملک کے کسی بھی حصے میں لوگ اہم شخصیات یا کھیلوں کی تقریبات کے لیے غیر معمولی سکیورٹی انتظامات کے معاملات پر معترض نہیں ہوں گے اگر عوام کے تحفظ کو اس کی قیمت نہ چکانا پڑے۔
کسی بھی قسم کی مالی امداد غمزدہ خاندانوں کے نقصان کا مداوا تو نہیں کر سکتی مگر حکومتکی یہ ذمہ داری ہے کہ جن مقتولین اور زخمیوں کی حفاظت میں وہ ناکام رہی ، اُن کے خاندانوں کی فوری مناسب مالی معاونت کرے تاکہ اس مشکل وقت میں وہ کم از کم معاشی فکروں سے آزاد ہوں۔
(زہرا یوسف)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی