پریس ریلیز
لاہور
22 جون، 2016
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے ایک اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کی جانب سے جرگے کے حکم پران دو افراد کوبری کرنے کے فیصلے کی شدید مذمت کی ہے جنہوں نے نام نہاد غیرت کے نام پر اپنے ماموں اور اپنی بھابی کو قتل کرنے کا اعتراف کیا تھا۔
بدھ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کمیشن نے کہا: ’’ ایچ آر سی پی خیبر ایجنسی کے علاقے لنڈی کوتل کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ (اے پی اے)کے فیصلے پر حیرت زدہ ہے جس میں انہوں نے ان دوبھائیوں کو بری کردیا جن پر اپنی بھابی اور ماموں کے قتل کا الزام تھا اور جنہوں نے بعد ازاں دعویٰ کیا تھا کہ مقتولین کے درمیان ’’ناجائز تعلقات ‘‘ تھے۔
’’دونوں بھائیوں کو گرفتار کرلیا گیا اور اپنے ریکارڈ کرائے گئے بیانات میں دونوں نے قتل کا اعتراف کیا۔
’’ ایک پانچ رکنی جرگہ تشکیل دیا گیا جس نے فیصلہ جاری کیا کہ ملزمان قرآن پاک پر حلف لیں کہ انہوں نے اپنی بھابی اور ماموں کو قتل کرکے ’’کوئی غلط کام نہیں کیا(بری نیت سے)۔جرگے کا کہنا تھا کہ اگر قاتلوں نے حلف اٹھا لیا تو وہ رواج کے مطابق بے گناہ ٹھہرائے جائیں گیاور انہیں رہا کردیا جائے گا۔
قبائلی علاقہ جات میں یہ رواج ہے کہ کسی مرد کو قتل کرنے کے بعد خاندان کی کسی عورت کو قتل کرنا اور ان پر ’’ناجائز تعلقات‘‘ کا الزام لگانا دونوں افراد کے قتل کو حق بجانب قرار دیتا ہے اور جرم پر قانونی چارہ جوئی سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔
’’ملزمان کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ جرگہ کا حکم واضح اور مقامی رواج کے مطابق ہے۔ انہوں نے مزید کہا: ’’ میں جرگہ کے اراکین کے اکثریتی فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں۔‘‘ جرگہ کا فیصلہ فریقین کو پڑھ کر سنایا گیا۔ مدعا علیہ فریق جرگہ کے اراکین کی جانب سے تجویز کئے گئے حلف کے لئے تیار پایا گیا۔ تاہم مدعی فریق نے مدعا علیہ فریق سے حلف لینے سے انکار کردیا۔ چونکہ مدعی فریق نے مدعا علیہ فریق سے حلف لینے سے انکار کیا اس لئے ملزمان کو بے گناہ قرار دیا گیا اور انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا۔
یہ بات تمام مہذب انسانوں کے لیے تکلیف دہ ہے کہ آج کے دور میں بھی کہ اس طرح کے ظالمانہ رجحانات قبائلی علاقہ جات میں نہ صرف قابل قبول سمجھے جاتے ہیں بلکہ نظام انصاف کے طور پر مستقل بنیادوں پر لاگو ہیں۔ آئین واضح طور پر ایسی تمام رسومات کو کالعدم قرار دیتا ہے جو قانون کے منافی ہیں مگر اس کے باوجود’’ رواج‘‘ بدستور لاگو ہے کیونکہ اعلیٰ عدالتیں قبائلی علاقہ جات میں دائرہ اختیار نہیں رکھتیں۔
ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قبائلی علاقوں کے عدالتی ونیم عدالتی عہدیداران کو واضح ہدایات جاری کریں کہ وہ فوجداری مقدمات کے ٹرائل کرتے وقت ’رواج‘ کو مکمل طور پر نظرانداز کیا کریں۔ انسانی زندگی کی محض اس وجہ سے بے وقعت نہیں ہونی کہ کوئی شہری بدقسمتی سے قبائلی علاقے میں رہائش پذیر ہے۔ مذکورہ مقدمے کے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔تاہم، ماسوائے اس کے کہ اعلیٰ عہدے پر براجمان فردمداخلت نہیں کرتا، ہمیں یقین ہے کہ ملزمان کو ان کی کارروائیوں کے لیے جوابدہ نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ اس امر کی نشاندہی اس چیز سے بھی ہوگئی ہے کہ مقتول فرد کی بیوہ کی متعدد درخواستوں کے باوجود مقامی حکام نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
اس ظالمانہ رواج، سرکاری چشم پوشی اور سیاسی حکام کی جانب سے انصاف کے انتظام وانصرام کے طریقہ کار کو بے نقاب کرنے کے علاوہ، یہ واقعہ فاٹا میں قانون کی پیروی کے بھیس میں ہونے والی قانون شکنی کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ ایچ آر سی پی کا مطالبہ ہے کہ اس نظام کی فوری جانچ پڑتال کی جائے جو انصاف کا مذاق اڑانے اور فاٹا کے مظلوم عوام کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ فاٹا کے لیے ایک ’قانونی‘ معیار جبکہ ملک کے دوسرے علاقوں کے لیے اس سے مختلف ’قانونی‘ معیار رکھنا بلا جواز ہے۔
(زہرہ یوسف)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی