لاہور
17اگست،2015ء
پریس ریلیز
اٹک میں گزشتہ روز ہونے والے دہشت گردی کے حملہ میں جاں بحق ہونے والے افراد کے خاندانوں سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے وفاقی اور پنجاب حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اپنی حکمت عملی کا ازسر نو جائزہ لیں۔ آج جاری ہونے والے اپنے ایک بیان میں کمیشن نے کہا کہ ’’پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق 19انتہائی قیمتی انسانی جانوں کے نقصان پر عوام کے صدمے میں برابر کا شریک ہے۔ یہ انسانی جانیں خود کش بم دھماکے کے نتیجے میں ہوئیں جو پنجاب کے وزیرداخلہ کرنل (ریٹائرڈ) خانزادہ شجاع کے گھر کے بیرونی حصے میں کیا گیا۔ کمیشن سوگوار خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتا ہے۔ کمیشن کو اس واقعہ پر اس لئے بھی زیادہ دکھ ہوا ہے کہ دو روز قبل قوم کو یہ خوشخبری سنائی گئی تھی کہ ہماری فوج کو دہشت گردی کی کمر توڑنے میں بہت بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
’’اس ہولناک واقعے نے انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی اور اس کے نفاذ سے متعلق کئی اہم سوالات کو جنم دیا ہے۔ پنجاب حکومت سکیورٹی میں پائی جانے والی خامیوں کی ذمہ داری لینے سے انکار نہیں کرسکتی جس کے نتیجے میں کئی انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ کرنل شجاع خانزادہ کو کئی دنوں سے دھمکیاں مل رہی تھیں لیکن اس کے باوجود اتوار کے روز انہیں سکیورٹی فراہم نہ کی گئی۔ حتیٰ کہ اُن سے وابستہ ایلیٹ پولیس سکواڈ بھی غیرحاضر تھا اور بظاہر اجلاس کے مقام تک رسائی کی نگرانی نہیں کی گئی تھی۔ اگرچہ ابھی تک کسی بھی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم اس واقعے میں حالیہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے ملک اسحاق کے گروہ کے ملوث ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ نہ ہی حکومت پنجاب میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی کے بارے میں مطمئن ہونے کی متحمل ہوسکتی ہے۔ حکومت کو انسداد دہشت گردی سے متلعق اقدامات پر بھی نظر ثانی کرنی چاہئے۔ اس کے تمام اقدامات قانون کے مطابق ہونے چاہئیں کیونکہ اس اصول سے انحراف کی صورت میں حکومتی قائدین اور اہلکاروں کے لئے خطرہ بڑھ جائے گا اور اس سے قومی ایکشن پلان کی کامیابی کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہوگا۔اس کے علاوہ سکیورٹی فورسز پر عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کے راستے بھی تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔