لاہور
23 جون 2015ء
پریس ریلیز

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے شدید گرمی کے سبب ملک بھر خصوصاً کراچی میں ہونے والے انسانی جانوں کے نقصان پر شدید اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ انسانی جانوں کے مزید نقصان کو روکنے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ منگل کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں کمیشن نے کہا ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث ملک بھر میں ہونے والا تباہ کن نقصان انتہائی تکلیف دہ ہے۔ سال کے اس حصے کے دوران پاکستان میں جھلسا دینے والا درجہ حرارت کوئی غیر متوقع قدرتی عمل نہیں ہے۔ اس کے باوجود اس برس اتنی زیادہ انسانی جانوں کا نقصان ہوچکا ہے اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے کی بجائے اس صورتحال کا تعلق گرم موسم کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ اتنی زیادہ انسانی اموات کا ذمہ دار صرف فطرت کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اس کی ذمہ داری انتظامیہ پر بھی عائد ہوتی ہے جس نے بروقت حفاظتی اقدامات نہیں کئے۔ اگر کراچی جیسے شہر میں پینے کا پانی میسر نہیں ہے تو یہ فرد کی ناکامی کے ساتھ ساتھ ہماری اجتماعی ناکامی بھی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اب کراچی اور دوسرے بڑے شہروں میں درختوں کے سائے پہلے کی طرح میسر نہیں رہے اور اس تکلیف دہ صورتحال کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کو ان درختوں کے کٹاﺅ سے پیدا ہونے والی صورتحال کا بھی جائزہ لینا چاہئے جو گھنا سایہ مہیا کرتے تھے اور جن کے پتوں سے ہوا چھن چھن کر آتی تھی اس کے علاوہ یہ درخت محنت کشوں اور راہ گیروں کو سایہ مہیا کرتے تھے۔ اب ان کی جگہ پتوں کے بغیرپودوں نے لے لی ہے جس کے باعث ہمارے نہتے اور عاجز شہری قدرت کی بے رحمی کا شکار ہوگئے ہیں۔ حکام کا فرض تھا کہ وہ موسم گرما میں شہریوں کو تسلسل کے ساتھ سورج کی تپش کا سامنا کرنے کے نقصانات سے آگاہی مہیا کرتے۔ اس کے علاوہ عوام کو باخبر کرنا چاہئے تھاکہ ایسی گرمی میں کونسی حفاظتی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ بجلی کی کمی اور اس کے باعث پیدا ہونے والے پانی کے بحران نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔
مانا کہ بجلی کی سپلائی اور ضرورت میں بہت فرق ہے لیکن بہتر انتظام اور بہتر بندوبست کے ذریعے بجلی کی کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ضروریات زندگی کی تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی قیمتوں پر بھی قابو پانے کی ضرورت ہے۔ رمضان کے مہینے میں تو اس کی اور زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے خصوصاً تغذیہ اور آبیدگی کے لئے اس کی از حد ضرورت ہوتی ہے۔ حکام کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو آگاہ کریںکہ وہ روز مرہ کے کاموں کی انجام دہی کے دوران کس طرح سورج کی تمازت سے پیدا ہونے والے خطرات سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ حکام کو یہ بھی یقینی بنانا چاہئے کہ وہ لوگوں کو بتائیں کہ لُو لگنے یا اچانک ڈی ہائیڈریشن (اچانک جسم میں پانی کی کمی) کی صورت میں انہیں فوری طور پر قریبی مرکز صحت جاکر طبی امداد لینی چاہئے۔ مختصر یہ کہ بہت سے طریقے ہیں جن کے ذریعے اموات سے بچا جاسکتا ہے۔ اپنے کندھوں سے ذمہ داری کا بوجھ اتار کر قسمت کو ذمہ دار ٹھہرانا عقلمندی نہیں ہے۔

(زہرہ یوسف)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی