پریس ریلیز
آسیہ بی بی کی رہائی خوش آئیند، مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے
لاہور، یکم نومبر 2018: پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نےمسیحی خاتون آسیہ بی بی کو رہا کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ آسیہ بی بی کو 2010ءمیں توہین مذہب کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ آج جاری ہونے والے ایک بیان میں ایچ آر سی پی نے کہا:
‘اگرچہ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ آسیہ بی بی کو قید میں آٹھ سال سزائے موت کے سائے میں گزارنے کےبعد رہائی مل گئی، تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں ‘توہین مذہب’ کے جرم میں کسی خاتون کو بھی پھانسی دی جاسکتی ہے۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کی اس کیس کی قیمت دیگر لوگوں، جیسے کہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی، کی جانوں کے ضیاع کی صورت میں ادا کرنا پڑی ہےجنہوں نے بہادری سے اور اعلانیہ طور پرآسیہ بی بی کی رہائی کی حمایت کی تھی۔
‘اطلاعات کے مطابق، تقریبا 40 دیگر افراد توہین مذہب کےجرم میں سزائے موت کے منتظر ہیں یا عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ریاست کو اس حوالے سے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہئےاور سول سوسائٹی کو ان کے لیے مزید آواز اٹھانی چاہئے۔ اگر انسانی حقوق کے تناظر میں دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ توہین مذہب کے قانون کے اطلاق کے مبہم ترین پہلوئوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ بے گناہی کا مفروضہ بڑی آسانی سے اخلاقی غم وغصے تلے دب جاتا ہے،جو کمزور اور محروم افراد کو ان لوگوں کے مقابلے میں لاکھڑا کرتا ہے جواکثریت میں ہیں۔ علاوہ ازیں، ماورائے عدالت اقبال جرم کو کسی بھی قسم کی قانونی حیثیت رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
‘ ایچ آر سی پی انتہا پسند مذہبی و سیاسی گروہوں کے قابل ملامت رد عمل کی شدید مذمت کرتا ہےجنہوں نے پرتشدد مظاہرے کیے ہیں اور اس کیس سے وابستہ افراد کو کھلے عام جان سے مارنے کی دھمکیاں دی ہیں۔ اگرچہ ہم حکومت کے اس موقف کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنا ہوگا، تاہم ایچ آر سی پی ریاست پر زور دیتا ہے کہ اسے اس بات کو مکمل طور پر واضح کرنا ہوگا کہ کسی بھی جماعت – خاص طور پر تحریک لبیک پاکستان- کی جانب سے مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش، جوقانون کے تحت قابل سزا ہے، کو برداشت نہیں کیا جائےگا۔ اس کے علاوہ، اگرچہ اس کیس اور اس طرح کے دیگر کیسز سے وابستہ ججوں اور وکلاء کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنا ضروری ہے تاہم، یہ ایک طویل اور مشکل جنگ کے لیے ایک قلیل المدتی حل ہے۔ ریاست کو بالآخر توہین مذہب کے قوانین میں اصلاحات کرنا ہوں گی تاکہ یہ قانون کا اپنے شہریوں پر منصفانہ اور بلا لحاظ عقیدہ اطلاق کرسکے۔’
ڈاکٹر مہدی حسن
چیئر پرسن