ایچ آر سی پی نے انسانی حقوق کے بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے صورتحال کی بہتری کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے
لاہور، 14 اگست۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی گورننگ کونسل نے اپنے ششماہی اجلاس کے اختتام پر ملک کے کمزور ترین شہریوں کے تحفظ میں ریاست کی مکمل ناکامی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ایچ آر سی پی کا مطالبہ ہے کہ بچوں کی حفاظت کے یونٹوں کو فعال کیا جائے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بچوں کے خلاف جرائم میں ملوث مجرموں کا سراغ لگانے اور اُن کے خلاف قانون کاروائی کرنے کے لئے اپنی کوششوں میں تیزی لائیں۔ عورتوں اور لڑکیوں پر تشدد جس کی حالیہ مثال اسلام آباد میں نورمقدم کا بہیمانہ قتل ہے، نیز راولپنڈی میں ایک خاتون جبکہ کوئٹہ میں کم از کم تین بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں جنس کی بنیاد پر عورتوں پر سنگین مظالم کی دیدہ دانستہ مہم جاری ہے جس کا تدارک انتہائی ضروری ہے۔ علاوه ازیں، گھریلو تشدد کے خلاف انتہائی اہم مسودہ قانون کو بلاوجہ صرف مردوں پر مشتمل اسلامی نظریاتی کونسل کے سپرد کردیا گیا ہے۔
مذہبی اقلیتیں اور مسالک شدید دباؤ کا شکار ہیں، اُن کی عبادت گاہوں کو اکثر حملوں یا بے حرمتی کا سامنا رہتا ہے۔ ریاست کو عدالتِ عظمیٰ کے 2014ء کے فیصلے پر عمل درآمد کے لئے فوری اور ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔ اِس عدالتی فیصلے میں عبادت گاہوں کے تحفظ کے لئے خصوصی پولیس فورس کے قیام کا تقاضہ کیا گیا تھا۔ حکومت کو یہ احساس بھی کرنا ہو گا کہ شیعہ ہزارہ برادری فرقہ ورانہ تشدد کے خاص نشانے پر ہے۔
ایچ آر سی پی کو کراچی کے علاقوں گجر نالہ اور اورنگی میں تجاوزات مخالف مہمات کے اثرات پر تشویش ہے۔ صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ بےگھر ہونے والے لوگوں کو مناسب معاوضہ دے اور اُن کی آبادکاری کا ایسا بندوبست کرے کہ جس سے اُن کے ذریعہ آمدن پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔ ایچ آر سی پی کا مطالبہ ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے ترقیاتی منصوبوں کی نتیجے میں ہونے والی جبری بےدخلیوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔
حکومت کو مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کی حفاظت پر خصوصی توجہ دینا ہو گی، خاص طور پر گوادر میں ماہی گیروں کے ذریعہ روزگار کو درپیش خطرات، اوکاڑہ میں فوج کے زیرملکیت کھیتوں میں چھوٹے کسانوں اور بلوچستان اور کے پی میں برے ترین حالات میں کام کرنے والے کان کنوں کے مسائل پر۔
ایچ آر سی پی کو جبری گمشدگیوں میں ملوث مجرموں کا محاسبہ نہ ہونے پر شدید تشویش ہے۔ تمام ریاستی ایجنسیوں کو قانون کے دائرے میں لایا جائے اور انکوائری کمیشن برائے جبری گمشدگان صرف اعداد ہی پیش نہ کرے بلکہ جوابات بھی دے۔
ایچ آر سی پی کو گذشتہ تین برسوں میں اظہارِ رائے کی آزادی پر لگائی گئی قدغنوں پر شدید تشویش ہے۔ صحافیوں کے اغواء اور اُن پر تشدد کی اطلاعات اکثروبیشتر موصول ہوتی رہتی ہیں، سیلف سنسر شپ معمول کا حصہ بن چکی ہے اور ریاست کی جابرانہ پالیسیوں کی وجہ سے صحافیوں کے لیے اپنی ملازمت برقرار رکھنا تک مشکل ہو گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حال ہی میں ‘ریاست مخالف رجحانات’ پر سرکار کی جاری کردہ رپورٹ انسانی حقوق کے کئی نامور دفاع کاروں اور صحافیوں کو بدنام کرنے کی سوچی سمجھی کوشش ہے۔
خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے اضلاع میں سیاسی انجنئیرنگ کا سلسلہ بند کیا جائے اور سیاسی اختلاف رائے پر عائد پابندیاں اٹھائی جائیں۔ اسی طرح ریاست کو اس علاقے سے تمام باردودی سرنگیں ختم کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت حال ہی میں طالبان کی جاری کردہ ‘قتل فہرست’ کی تحقیقات کرے اور اُس سے متعلق تمام افراد کو سیکیورٹی فراہم کرے۔
افغانستان میں پُرتشدد صورتحال مہاجرین کی بہت بڑی تعداد کی ہجرت کا سبب بن سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر ايچ آر سی پی حکومت کو یاد دہانی کرانا چاہتا ہے کہ ملک کی سرحدوں کے اندر مقیم تمام افراد کی آزادی اور سلامتی کے حق کی ضمانت اس کا اخلاقی فریضہ ہے۔ پاکستان کو مہاجرین کی حیثیت سے متعلق جنیوا کنونشن 1951 پر دستخط بھی کرنے چاہیبں اور ان تمام افراد کے حقوق کی حفاظت کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے جو پناہ کی درخواست دیں۔ شدت پسندی کے امکان میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے، ریاست کو چاہیے کہ وہ شہریوں کو نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ کے صورتحال کے بارے میں بھی آگاہ کرے۔
حکومت کے جابرانہ طرزِعمل میں اضافے کی وجہ سے ریاست اور سول سوسائٹی کے درمیان اتفاقِ رائے کی فضا سکڑ رہی ہے۔ ایچ آر سی پی کو گذشتہ تین برسوں کے دوران ملک کے وفاقی ڈھانچے پر پڑنے والے شدید دباؤ پر بھی پریشانی ہے۔ طالبعلموں کے سیکولرتعلیم کے حق کو مدنظر رکھتے ہوئے، کسی صوبے کو بہت زيادہ تنقید کا نشانہ بننے والے یکساں قومی نصاب اختیار کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔
پارلیمانی کاروائیاں خفیہ انداز سے نہیں ہونی چاہیں۔ عوام کو ایوان میں ہونے والی بحث اور فیصلہ سازی جاننے کا حق ہے۔ بالکل اِسی طرح، ایچ آر سی پی عدلیہ کی آزادی کی مخدوش حالت، سندھ اور کےپی میں جرگے کے بدستور اطلاق، اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی غیرفعال حالت بھی فکرمند ہے۔
ایچ آر سی پی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنی ویکسینیشن مہم میں تیزی لائے اور یقینی بنائے کہ ایسے افراد سماجی تحفظ کی اسکیموں سے مستفید ہونے سے محروم نہ رہ جائیں جن کے پاس شہریت کی دستاویزات نہیں اور اُن لاکھوں بےضابطہ کنٹریکٹ ملازمین کو بھی ان اُسکیموں میں شامل کیا جائے جو روزگار کے لیے کے اپنی نقل و حرکت کی آزادی پر منحصر ہیں۔
چئیرپرسن حنا جیلانی
ایچ آر سی پی کی کونسل کے ایماء پر