حکومت ایذارسانی کو جرم قرار دے: ایچ آر سی پی، جے پی پی
لاہور، 26 جون 2021. 14 سالہ محمد عاصم اور شاہ زیب 17 دیگر افراد کے ہمراہ حال ہی دورانؚ حراست پولیس کے تشدد کا نشانہ بن کر اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے ہیں۔ پاکستان جی ایس پی پلس اسکیم اور انسانی حقوق کے دیگر عالمی معاہدات کے تحت ایذارسانی کو جرم قرار دینے کا فریضہ نبھانے میں ابھی تک ناکام ہے۔
پاکستان نے ایذارسانی، اور دیگر ظالمانہ، غیرانسانی یا ذلت آمیز سلوک یا سزا (کیٹ) اور شہری و سیاسی حقوق کے عالمی معاہدے (آئی سی سی پی آر) پر دستخط کر رکھے ہیں۔ پاکستان ایذارسانی کی روک تھام اور سزا کو یقینی بنانے کے لیے تمام اقدامات کرنے کا پابند ہے۔ ان معاہدات کے تحت، ریاستیں متاثرین کی مناسب دادرسی کرنے کی بھی پابند ہیں۔
ایذارسانی کو جرم قرار دینے میں ناکامی کی وجہ سے بچوں، عورتوں اور پس ماندہ طبقوں کے افراد کی زندگياں خطرات میں گھری ہوئی ہیں۔ ایذارسانی نے فوجداری نظامؚ انصاف کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے،غیرمنصفانہ سزاؤں کا سبب بنا رہا ہے، اور اس کی بدولت قانون کے نفاذ کے نظام اور شہریوں کے مابین اعتماد کا رشتہ ٹوُٹ گیا ہے۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان نے 26 جون 2020 سے لے کراب تک دورانؚ حراست 17 ہلاکتیں قلم بند کی ہیں۔ یہ صرف وہ واقعات ہیں جو ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام تک پہنچ پاتے ہیں۔ کئی دیگر واقعات اب بھی رپورٹ نہیں ہو پاتے۔
پارلیمان کو آئین کے آرٹیکل 14 (2) کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے اُن شہریوں کے حقوق کی حفاظت کی ذمہ داری نبھانی ہو گی جو اُسے منتخب کرتے ہیں۔
ایذارسانی کی تعریف وضع کرنے اور اسے جرم قرار دینے کے لیے ضروری قانونی ڈھانچے کی عدم موجودگی میں، ایچ آر سی پی کو مختلف ریاستی ایجنسیوں، بشمول فوجی و سویلین، کی طرف سے شہریوں کو مختلف طریقوں سے اذیت دینے کے رجحان پر شدید تشویش ہے۔ پولیس کی حراست اور جیلوں میں ایذارسانی کے واقعات کے علاوہ، ماورائے عدالت ہلاکتوں، جبری گمشدگیوں، غیرت کے نام پر قتل، مذہبی اقلیتوں پر مظالم، فرقہ ورانہ حملوں اور گھریلو تشدد کے واقعات میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ علاوہ ازیں، ایچ آر سی پی کو اس بات پر تشویش ہے کہ حکومت کی جانب سے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق، اور قومی کمیشن برائے حقوق نسواں کے ذریعے ایذارسانی کے خلاف حفاظتی اقدامات حالیہ سالوں میں غیرفعال رہے ہیں۔
آئیے ہم ایذارسانی کے متاثرین کی حمایت کے عالمی دن، جو ہر سال 26 جون کو منایا جاتا ہے، کے موقع پر سزا سے استثنا کے کلچر کے خاتمے اور اس غیرانسانی سرگرمی کو جرم قرار دینے کے لیے جامع قانون سازی کا عہد کریں۔ ایذارسانی مجرمانہ سرگرمی ہے۔ اسے جرم قرار دیا جائے۔
جسٹس پراجیکٹ کی ایگذیکٹو ڈائریکٹر سارہ بلال کا کہنا ہے: اس ہفتے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی حراست میں ایک شخص کی پھندہ لگی نعش ملی۔ زيادہ تر دورانؚ حراست اموات ایذارسانی کی وجہ سے ہوتی ہیں جو نہ صرف فوجداری نظامؚ انصاف کو تباہ کر دیتی ہے بلکہ تشدد کے سلسلے کو بھی دوام بخشتی ہے۔ یہ اکثر ناجائز قید اور سزائے موت کا سبب بھی بنتی ہے۔ جب تک ایذارسانی کو جرم قرار نہیں دیا جاتا، فرد کی زندگی اور وقار کا حق جو ہر شہری کو ان کی لسانی شناخت، صنف، یا سماجی حیثیت سے قطع نظر فراہم کیا جانا چاہیے، پامال ہوتا رہے گا۔
ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق کا کہنا ہے: حکومت کو فوری طور پر ان عالمی اصولوں کے حوالے سے آگہی پیدا کرنا ہو گی جو ہر قسم کے حالات میں ایذارسانی کی ممانعت کرتے ہیں۔ مزیدبرآں، مجرموں کو جوابدہ ٹھہرانے کے علاوہ، متاثرین کی دادرسی کا بندوبست بھی ہونا چاہیے۔