حکومت نے کوویڈ 19 پر غیرتسلّی بخش ردِعمل کا مظاہرہ کیا ہے

ایچ آر سی پی کی تحقیق اور سفارشات پر مبنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ

اسلام آباد/لاہور، 19 جولائی۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے کوویڈ 19 وباء سے متعلقہ فیصلہ سازی کے معاملات پر پارلیمانی نگرانی کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ حکومت کا مجموعی ردِعمل اعلیٰ سطح پر جاری ہونے والے بے ربط بیانات سے شدید متاثر ہوا ہے اور اب وفاقی و صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ بحران کے اِس مشکل گھڑی میں متحدہ ردِعمل دے کر اپنی غلطی کی تصحیح کریں۔ ایچ آر سی پی نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ وباء کی روک تھام اور علاج معالجے سے متعلقہ تمام کوششوں میں پِسے ہوئے اور خستہ حال لوگوں کے مفادات کو اوّلین ترجیح دی جائے، نہ صرف حالیہ صورتحال میں بلکہ طویل المدتی اصول اور پالیسی کے طور پر بھی۔

ایچ آر سی پی نےآج اپنی ایک تجزیاتی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق، وباء کے پھیلاؤ نے ریاستی اداروں اور حکمران اشرافیہ پر عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے اور عوام کی نظروں میں اُن کی عزت پہلے سے کم ہوگئی ہے۔ صحت عامہ کے بحران نے ملک کے نظام میں پہلے سے پائی جانیوالے امتیازی سلوک اور عدم مساوات کو اور تیز کر دیا اور غلط سماجیو معاشی ترجیحات سے پردہ ہٹا دیا ہے۔

رپورٹ میں ملک بھر سے مختلف شعبہ ہائے جات سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے انٹرویوز شامل ہیں، جن میں صرف 25 فیصد کا خیال تھا کہ وفاقی حکومت کے اقدامات کوویڈ 19 پر قابو پانے میں مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔ لگ بھگ 94 فیصد کا خیال تھا کہ وباء نے سب سے زيادہ دہاڑی دار مزدور کو متاثر کیا ہے۔ نصف سے زائد یہ سوچ کر پریشان تھے کہ امدادی سامان کی تقسیم میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک ہو گا اور تقریباً 70 فیصد نے محسوس کیا کہ عورتوں کے خلاف گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

معاشی سرگرمی کی بحالی کی کوئی بھی کوشش طلب میں اضافے پر مبنی ہونی چاہیے اور لوگوں کو ملازمت سے نکالے جانے سے گریز کیا جائے۔ اِس کے علاوہ، روزگار پیدا کرنے اور وسیع تر، مؤثر سماجی تحفظ کے لیے درکار وسائل بنانے کے لیے حکومت کو مترُوک سرکاری ڈویژنوں اور محکموں اور غیرضروری دفاعی اخراجات سے فوری چھٹکارا پانا ہو گا۔

جہاں تک صحت عامہ کا تعلق ہے،  ایسی حکمتِ عملی اپنائی جائے جو بیماریوں کے جنم لینے اور پھیلاؤ سے قبل ہی اُن کی روک تھام پر زور دے۔ اگلی صفوں پر کام کرنے والے تمام لوگوں، بشمول صفائی ستھرائی پر مامور عملے کو ذاتی حفاظتی سازوسان فراہم کیا جائے۔ قلیل المدتی پالیسی کے طور پر، حکومت کو صوبائی سطح پر صحت کے شعبوں میں خالی اسامیاں پُر کرنے اور قرنطینہ اور تنہائی کے لیے ضلعی ہسپتالوں کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

عورتوں کی صحت، روزگار اور گھریلو تشدد جیسے خاص معاملات فوری توجہ کے طلب گار ہیں۔ حکومت اور سول سوسائٹی کے ادارے مذہبی اقلیتوں، معذوریوں میں مبتلا افراد، عمررسیدہ افراد اور خواجہ سراؤں کی نامساعد حالت سے صرفِ نظر کے متحمل نہیں ہو سکتے، خاص طور پر اُن لوگوں کو صحت کی سہولیات اور امدادی سامان کی فراہمی ایسے معاملات کے حوالے سے۔ آن لائن تعلیم اور انٹرنیٹ کی سروس کی عدم دستیابی سے جڑے مسائل کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی جیلوں پر بھی سنجیدہ توجہ دی جائے جو وبائی امراض کا آسان ہدف بن سکتی ہيں۔

یہ تمام سطحوں کی حکومتوں کے لیے فیصلہ کن گھڑی ہے۔ اُن کی کارکردگی کا جائزہ اِس بنیاد پر لیا جائے گا کہ انہوں نے اِس بحران کا سامنا کس طرح کیا، اور یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہے کہ بحران کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

چئیرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن کے اِیماء پر