سابق فاٹا کو مرکزی دھارے میں لانے کا وعدہ 2020 میں پورا نہیں کیا گیا

پشاور، 22 جون ۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی سالانہ رپورٹ 2020 میں انسانی حقوق کی صورتِ حال میں خیبرپختونخوا (کے پی) میں کوویڈ 19 کے تباہ کن اثرات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا  گیا ہے۔ صوبے میں کوویڈ کے 58,702 کیسز اور1,649  مریضوں کی اموات قلم بند ہوئیں۔ بہت کم تعداد میں لوگوں کے کوویڈ 19 معائنے ہوئے جس سے صورتِ حال اور زيادہ گھنمبیر ہوئی۔ سال کے اختتام تک، ساڑھے تین کروڑ باشندوں میں سے نصف سے بھی کم کا معائنہ ہوا تھا۔ کوویڈ سے متعلقہ پابندیوں نے نقل و حرکت اور انجمن سازی کی آزادی کو بھی بہت زيادہ متاثر کیا۔

کے پی کی اسمبلی نے 30 سے زائد قوانین منظور کیے جن میں سے کم از کم 17 کا انسانی حقوق سے براہ راست تعلق تھا۔ طویل عرصہ سے التوا کا شکار ہونے کے باوجود، 2020 میں بھی مقامی حکومتوں  کے انتخابات منعقد نہ ہو سکے۔ اس کا مقامی ترقی پر بہت برا اثر پڑا کیونکہ حکومت 2020/2019 میں مقامی حکومتوں کو مختص ہونے والے 46 ارب روپوں میں سے 43 ارب روپوں کو استعمال نہیں کر سکی۔ سابق قبائلی علاقہ جات جو پہلے وفاق کے زیرِانتظام تھے، کو صوبہ کے پی کے مرکزی دھارے میں لانے کا وعدہ بھی پورا نہ ہو سکا کیونکہ قبائلی عشرہ حکمتِ عملی کا نفاذ بہت غیرمؤثر تھا۔ ترقیاتی مد میں 74 ارب روپے کا وعدہ کیا گیا تھا مگر مختص صرف 37 ارب روپے کیے گئے۔

2020 میں جیلیں گنجائش سے زيادہ قیدیوں سے بھری رہیں۔ 11,000 سے زائد قیدیوں میں سے لگ بھگ 8,000  قیدی ایسے تھے جن کے مقدمات کی سماعت  التوا کا شکار تھی۔ عدالتوں میں پڑے مقدمات کے انبار سے نمٹنے کے لیے بہت کم پیش رفت ہوئی۔ 2020 کے اختتام پر، عدالتِ عالیہ پشاور میں 41,042 جبکہ ضلعی عدالتوں میں 230,869 مقدمات زیرِالتوا تھے۔ ایک خوش آئند پیش رفت یہ ہوئی کہ عدالتِ عالیہ پشاور نے ایسے تقریبااً 200 افراد کو رہا کرنے کا حکام صادر کیا جنہیں فوجی عدالت نے دہشت گردی سے متعلق مقدمات میں سزا سنائی تھی۔ عدالتِ عالیہ پشاور کے اس فیصلے نے ہمارے نظامِ انصاف پرانصاف کے قتل کی  فردِ جرم عائد کی ہے ۔ اس کے علاوہ، سال کے دوران، کسی فرد کو پھانسی نہیں لگی، اگرچہ کم از کم ایک فرد کو سزائے موت سنائی گئی۔

صوبے میں امن عامہ کی صورتِ حال غیرمستحکم رہی۔ دہشت گردی کے حملے، مذہبی اقلیتوں اور خواجہ سراؤں پر حملے، عورتوں کی ہراسانی اور بچوں کے ساتھ زیادتی کی اطلاعات پورا سال سامنے آتی رہیں۔ بہت کم مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا جس سے جرم کے خلاف قانونی کاروائی کے فقدان کی نشاندہی ہوتی ہے۔ 2020 کے اختتام تک، جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن نے 1,335 لاپتہ افراد کا سراغ لگایا تھا۔ مجموعی طور پر، 2011 میں اس کے آغاز سے لے کر اب تک، کمیشن نے 713 افراد کا حراستی مراکز اور 93 کا جیلوں میں سراغ لگایا مگر یہ اعدادوشمار صوبے میں جبری گمشدگیوں کی شدت کو پوری طرح واضح نہیں کرتے کیونکہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زيادہ ہو سکتی ہے۔

چئیرپرسن حنا جیلانی کے ایماء پر