پریس ریلیز
لاہور
12 اکتوبر 2015
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ ناخوشگوار انتخابی مہم کو خیر باد کہہ دیں تاکہ سیاست کا رُخ واپس عوام کے اصل مسائل کی طرف ہو سکے۔ کمیشن نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ بامقصد انتخابی اصلاحات کے لیے فوری طور پر اقدامات کیے جائیں۔
پیر کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے اس حقیقت کا خیر مقدم کیا ہے کہ اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات عمومی طور پر پُرامن رہے۔ حالانکہ لوگوں کی سوچ اس کے بالکل برعکس تھی انتخابی مسابقت یا مقابلہ کا جہاں تک تعلق ہے تو اس حوالے سے ایچ آر سی پی ایسے ہر نتیجے کا خیر مقدم کرتا ہے جس سے جمہوری عمل کو فروغ ملتا ہو لیکن کمیشن یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہے کہ بندوق کی نوک پر اور فوج کی نگرانی میں ایسی کوئی کارروائی کرنا جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔
’’ضمنی انتخابات میں ایسے بہت سے دوسرے عناصر بھی سامنے آئے جن کا جمہوریت کے فروغ میں شاید کوئی کردار نہیں تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ انتخاب انتہائی مہنگا بلکہ بہت زیادہ مہنگا انتخاب تھا۔ یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ این اے 122 کا ضمنی انتخاب پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن دونوں ہی کے لیے عزت اور وقار کا مسئلہ بن چکا تھا۔ بہت سے لوگ ایسے انتخاب کو جمہوری تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کریں گے جس میں اس قدر دولت ضائع کی گئی ہو۔ یہ صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک یہ تصور پایا جاتا ہے کہ صرف امراء ہی انتخاب لڑ سکتے ہیں۔ خصوصاً لاہور کے ضمنی انتخاب میں دونوں جماعتوں نے ناخوشگوار انتخابی مہم چلائی اور عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف تکلیف دہ باتیں کیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کا مذاق اڑایا، ایک دوسرے پر بہتان تراشیاں کیں اور ایک دوسرے پر ذاتی حملے کیے۔‘‘
کمیشن نے بیان میں مزید کہا کہ ’’لوگوں کے مسائل ان سے کہیں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ خود پسندی، انا پرستی، مجہول غرور سے کہیں زیادہ بڑے مسائل سے دوچار ہیں۔ جمہوریت کے حوالے سے ہر ایک کی اپنی اپنی سوچ ہے۔ یہ کافی اہم مسائل ہیں۔ اس کے باوجود گورننس اور دوسرے اہم مسائل پر توجہ بہت کم دی گئی۔ ہر انتخاب میں ایک امیدوار جیتتا ہے اور دوسرا ہار جاتا ہے۔ لیکن انتخابات کو دوسروں کے نقصان کے لیے استعمال کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہوتی۔ اتوار کے ضمنی انتخاب کو مہنگی ترین فتح ہی کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کا اعزاز ہے کہ اس نے اس انتخاب کو بے حد سخت مقابلہ بنا دیا۔ انتخابی نتائج ہر سیاسی تنظیم کی آنکھیں کھول دینے کے لیے ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنی کارکردگی کا جائزہ لیں۔ اتوار کے ضمنی انتخاب میں بہت سی تنبیہات موجود ہیں جن سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ صرف حزب اختلاف نہیں بلکہ حکومت کے لیے بھی بہت سے اسباق موجود ہوتے ہیں۔‘‘ کمیشن نے امید ظاہر کی کہ انتخابی نتیجہ کا نشہ جیتنے والے کے سر کو نہیں چڑھے گا۔ اس کو یاد رکھنا ہو گا کہ ووٹروں کی ایک بڑی تعداد نے اس کے خلاف ووٹ دئیے ہیں اور بہت سے لوگوں نے ووٹ کا حق استعمال ہی نہیں کیا۔ اب یہ تمام سیاسی جماعتوں پر منحصر ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ سیاست کا رُخ دوبارہ مسائل کی طرف موڑا جائے اور لوگوں کو باور کرایا جائے کہ تمام چیلنجوں کا سامنا جمہوری طریقے سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ ایچ آر سی پی تمام سیاسی جماعتوں پر عاجزانہ استدعا کرتا ہے کہ وہ مل جل کر انتخابی اصلاحات پر کام کریں اور ان اصلاحات کو تیار کر کے متعارف کروائیں اور یہ کام صرف اور صرف سول ذرائع ہی سے ہونا چاہیے تاکہ آئندہ انتخابات بہتر طریقے سے منعقد ہو سکیں۔ ایچ آر سی پی سیاسی قوتوں کو متنبہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ انتخابی اصلاحات میں مزید تاخیر کے نتیجے میں وقیع تبدیلیاں اور عمومی اتفاق رائے مشکل ہو جائے گا۔
(زہرہ یوسف)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی