‘شراکتی جمہوریت پاکستان کی بقا کے لیے ناگزیرہے’: ایچ آرسی پی
لاہور، 07 اپریل 2019۔ تینتیسویں سالانہ عمومی اجلاس کے اختتام پر، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے درج ذیل بیان جاری کیا ہے:
ایچ آرسی پی کو شراکتی جمہوریت کے بنیادی اصولوں میں ردوبدل کرنے اوراکثریت کو فوقیت دینے والے ریاستی طریقہ کارکی طرف لوٹنے کی کوششوں پرتشویش لاحق ہے۔ اس رجحان پرقابو پایا جائے کیونکہ یہ تنوع کے تقاضوں کے منافی ہے۔ ایچ آرسی پی کو اٹھارہویں ترمیم میں سوچے گئے منصوبے میں بہتری لانے پرکوئی اعتراض نہیں مگروفاقی اکائیوں کے حقوق اورمفادات کو ٹھیس پہنچانے والی کوئی بھی کوشش ریاست کی بقا کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی۔
ایچ آرسی پی پاکستان میں سول سوسائٹی تنظیموں کے لیے پیدا کی جانے والی تنگی کی مذمت کرتا ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظرکہ جہاں کہیں اور جب کبھی بھی ریاست عوام کو سہولیات کی فراہمی میں ناکام ہوئی، ان تنظیموں نے وہ خلاء پرکرنے میں کلیدی کردارادا کیا،اب ان کی رجسٹریشن سے انکارکرکےاورانہیں بے جا پابندیوں کا نشانہ بنا کرسماجی عمل سے باہرکرنا نہایت افسوسناک بات ہے۔ انجمن سازی کی آزادی جو کہ ایک آئینی حق ہے، پرپابندیاں ناقابل قبول ہیں۔
ذرائع ابلاغ بہت زیادہ دباؤ کا شکارہیں۔ ملازمتوں کے خاتمے کی صورت میں اوراختلاف رائے کرنے یا اسٹیبلشمنٹ کے خیالات کی مخالفت کرنے والے صحافیوں کی ہراسانی میں اضافے کی صورت میں بھی۔ ہراسانی کا یہ سلسلہ آن لائن بھی ہے اوراس کے لیے دیگرطریقے بھی اختیارکیے جارہے ہیں۔ پیمرا نے ذرائع ابلاغ پربے جا پابندیاں عائد کردی ہیں اورایسا لگ رہا ہے کہ یہ پابندیاں کوئی ٹھوس مقصد حاصل نہیں کرپائیں۔ ان کے نتیجے میں اختلاف رائے کی اہم آوازیں خاموش کردی گئی ہیں جس کے پاکستان کی جمہوری ترقی پرشدید منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
ایچ آرسی پی کو فوجی عدالتوں کے تسلسل پرافسوس ہے۔ ان عدالتوں سے منسلک تمام معاملات فکرمندی کا باعث ہیں۔ فوجی عدالتیں بنیادی طورغیرجمہوری ہیں اورانہیں جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ ملک کے عدالتی اورپولیس کے نظام کے ذریعے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے، جو کہ ایک جمہوری اختیارکےتحت شہری امن و امان برقراررکھنے کے ذمہ دارہیں اوررہنے بھی چاہییں۔
ایچ آرسی پی مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات میں،خاص طورپرسندھ میں، اضافے کی مذمت کرتا ہے۔ یہ ایک باقاعدہ اورمنظم رجحان لگ رہا ہے۔ اس مسئلے کو ان برادریوں کی غیرمحفوظ لڑکیوں اورعورتوں پرجبرکے وسیع ترتناظرمیں دیکھنے کی ضرورت ہے جو اپنے عقیدے، طبقے اورسماجی و معاشی حیثیت کی وجہ سے پہلے ہی محرومیوں کا شکارہیں۔
یہ تکلیف دہ چیز بھی ایچ آرسی پی کے مشاہدے میں آئی ہے کہ بلوچستان میں کشیدگی کے نئے محاذ کھل گئے ہیں۔ کشیدگی اب بلوچستان کے پشتون علاقوں میں پھیل رہی ہے۔ بلوچستان لیویزپرحملے ظاہرکرتے ہیں کہ شدت پسندی کے اڈے صوبے کے لیے بدستورایک گمبھیر مسئلہ ہیں۔ ایچ آرسی پی ریاست سے کہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ وہ تمام افراد کو جبری گمشدگی سے تحفظ فراہم کرنے کے عالمی معاہدے پردستخط کرے اوراس معاہدے کی توثیق کرے۔ متاثرہ فرد کے گھرواپس آنے پرجبری گمشدگی کا کیس ختم نہیں ہوجانا چاہیے۔ لوگوں کو جبری لاپتہ کرنے والوں کو سزا سے جو استثنٰی حاصل ہے وہ شدید تشویش کا باعث ہے اوراگراس مسئلے پرقابو پانا ہے تو پھریہ استثنٰی ختم کرنا پڑے گا۔
ایچ آرسی پی کا ریاست سے مطالبہ ہے وہ اس امرکو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو وہی حقوق ملیں جو پاکستان کے دیگرشہریوں کو آئین کی رو سے حاصل ہیں۔ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کا فوری تعین کرنے کی ضرورت ہے۔ آرڈر2018 متنازعہ ہے اورعلاقے کے عوام کے جذبات کی قدرکرنے کی ضرورت ہے۔ گلگت بلتستان کی عدالتوں میں ججوں کی خالی اسامیوں پرفوری تعیناتیاں کی جائیں۔
پاکستان میں بڑے پیمانے پربچوں کے استحصال کو مروجہ قدر کے طورپرقبول نہیں کیا جاسکتا۔ بلوچستان کے کان کنی کے شعبہ میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی اطلاعات پرایچ آرسی پی کو تشویش ہے۔ بچے چونکہ معاشرے کے سب سے زیادہ غیرمحفوظ طبقوں میں شامل ہیں، اس لیے ایچ آرسی پی کا ریاست سے مطالبہ ہے کہ ان کی زندگی کی سلامتی و تحفظ کے حق کو قابل ترجیح قراردیا جائے۔ ایچ آرسی پی کان کنی کے شعبہ کی حالت پربھی فکرمند ہے۔ یہ شعبہ بچوں سے مشقت، کام کے خطرناک حالات اورکانوں کے مالکان کی نظرمیں پیشہ ورانہ صحت اورتحفظ کی اہمیت نہ ہونے جیسے مسائل کا شکارہے۔ اس شعبہ میں مزدوروں کی دستاویزکاری کا نہ ہونا ایک اہم مسئلہ ہے جس کے بغیرکام کے حالات بہترنہیں ہوسکتے۔
ایچ آرسی پی نے خواجہ سراء افراد ایکٹ 2018 کو خوش آئند قراردیا ہے مگراس کے ساتھ ساتھ ریاست سے اپیل ہے کہ اس قانون کے نفاذ کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ اگراس پسے ہوئے طبقے کو معاشرے میں اپنا جائز کردارادا کرنا ہے تو پھران کے حقوق اورشناخت کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔
شدت پسندی میں اضافہ ایچ آرسی پی کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ بہاولپورمیں ایک حالیہ واقعہ میں ایک طالبعلم نے یونیورسٹی پروفیسر کو صرف اس وجہ سے قتل کردیا کہ وہ اپنے طالبعلموں کے لیے ایک مخلوظ اجتماع منعقد کررہے تھے۔ یہ واقعہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ طالبعلم نے مبینہ طورپرشدت پسند تحریک لبیک پاکستان سے اپنے روابط کا انکشاف کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہےکہ تعلیمی اداروں میں شدت پسندی کس حد تک سرایت کرچکی ہے۔
اس سال کے کامیاب عورت مارچ کے بعد جس طرح کی بدزبانی کی گئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عورتوں کے لیے اجتماع کی آزادی اورعوامی مقامات کے استعمال کے حق کو منوانا کتنا مشکل ہے۔ عورتوں کو ریپ کی دھمکیوں سمیت دیگرقسم کی دھمکیاں دی گئیں محض اس وجہ سے کہ انہوں نے مارچ کرنے کی جسارت کی تھی۔ اس طرزعمل کا کوئی جوازپیش نہیں کیا جاسکتا۔
ریاست نے دہشت گردی کے لیے ہونے والے مالی وسائل کی فراہمی کو روکنے کے سلسلے میں اب تک جو اقدامات کیے ہیں وہ غیرتسلی بخش ہیں۔اس حقیقت سے انکارنہیں کیا جاسکتا کہ مسلح تنظیمیں سب سے پہلے ملک ملک کے اپنے عوام کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں ۔ اس لیے ہم سمجتھے ہیں کہ یہ ملک کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ اپنی سمت درست کرے اور تمام مسلح تنظیموں پرپابندی عائد کرے۔
ڈاکٹرمہدی حسن
چئیرپرسن