لاہور
14 اکتوبر 2013

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے ریاست کو درپیش شدید بحرانوں سے نبٹنے کے حوالے سے واضح پالیسی اور حکمت عملی کے فقدان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ایچ آر سی پی کی ایگزیکٹو باڈی نے اتوار کو اپنے خصوصی اجلاس کے اختتام پر کہا: پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی ایگزیکٹو باڈی کو ملک کو درپیش متعدد بحرانوں پر قابو پانے کے حوالے سے واضح پالیسی اور حکمت عملی کے فقدان پر تشویش لاحق ہے۔ دہشت گردوں سے کسی بھی قیمت پر مذاکرات کرنے کی شدید خواہش کے برے نتائج نکلیں گے۔ ان مذاکرات کی شرائط کے متعلق پائے جانے والے ابہام سے عوام کی اس پریشانی میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے کہ دہشت گردوں کو دی جانے والی رعایت کی قیمت انہیں بنیادی انسانی حقوق پر سمجھوتے کی صورت میں چکانی پڑے گی اور دہشت گردوں کے زیرقبضہ علاقوں میں ریاست کا برائے نام کنٹرول بھی ختم ہوجائے گا۔ مزیدبرآں‘ لوگوں کی یہ توقعات بھی دم توڑ رہی ہیں کہ ریاست کشیدگی زدہ علاقوں میں شہریوں کے تحفظ اور ضروریات کے حوالے سے اپنی بنیادی ذمہ داریاں سرانجام دینے کی استعداد حاصل کرلے گی۔ ایچ آر سی پی دنیا بھر میں ڈرون حملوں کا مخالف ہے مگر پاکستان میں دہشت گردی کا صرف یہ ہی بنیادی سبب نہیں ہے اور پالیسی سازوں کی جانب سے صرف اس معاملے پر زور دیناحقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی ڈرون حملوں میں مارے جارہے ہیں تاہم لوگوں کی بہت بڑی تعداد دہشت گردوں کے بیہمانہ اور سنگین حملوں میںماری جاری ہے جس پرہماری سیاسی قیادت سنجیدہ توجہ نہیں دے رہی۔ اس لیے مکمل صورت حال کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایچ آر سی پی کا خیال ہے کہ پاکستان کے تمام مسائل کا سبب شدت پسندی پر ٹھوس ردعمل کا فقدان ہے۔

قانون میں ترامیم: قانون میں مجوزہ تبدیلیوں، بالخصوص دہشت گردی مخالف ایکٹ (اے ٹی اے) میں مجوزہ ترامیم نے اس خدشے کو جنم دیا ہے کہ ان کے باعث انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جنم لیں گی۔ برقیاتی انداز سے کوائف اکٹھا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ عوام کی خفیہ نگرانی اور ان کی نجی زندگیوں میں مداخلت کی جائے گی۔ دستاویزات میں تحریف کئے جانے کا خدشہ بھی ہے۔ ان ترامیم پر ہونے والے مباحثے سے عوام کو بے خبر نہ رکھا جائے۔ کوئی بھی فیصلہ انتہائی شفاف اور جمہوری طریقے سے کیا جائے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ لاقانونیت کو کنٹرول کرنے کے لیے ماورائے عدالت اور غیر قانونی اقدامات کی طرف رجوع نہ کرے اور تحفظ عامہ کی خواہش میں انسانی حقوق پر سمجھوتہ نہ کرے۔

جبری گمشدگی: یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ پاکستان نے ابھی تک جبری گمشدگی کی غیر قانونی روش ختم نہیں کی۔ بلوچستان میں یہ مسئلہ ابھی تک حل طلب ہے۔ علاوہ ازیں خیبرپختونخوا اور سندھ میں جبری گمشدگیوں کے واقعات تشویش میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ایچ آر سی پی کا خیال ہے کہ بلوچستان میں مجرموں کو سزا سے استثنیٰ کے باعث دیگر صوبوں میں بھی ان خلاف ورزیوں کو فروغ مل رہا ہے۔ کمیشن کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ ”جبری گمشدگی سے تمام افراد کا تحفظ کا بین الاقوامی میثاق“ پر دستخط کرے اور اس کی توثیق کرے۔
قیمتوں پر اضافہ: قیمتوں میں بڑھتے ہوئے اضافے کے باعث عوام کی صحت، تعلیم اور خوراک سمیت بنیادی حقوق تک رسائی کم ہوتی جارہی ہے۔ بالخصوص توانائی کی قیمت میں اضافے اور افراط زر کے باعث لوگوں پر شدید برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے بصورت دیگر غربت کی وجہ سے جرائم، خودکشیوں اور ذہنی بیماریوں میں اضافہ ہوگا۔

نظم ونسق:پاکستانی عوام نے جمہوریت کے لیے عظیم قربانیاں دی ہیں اور وہ ایک انتہائی بہتر نظم ونسق پانے کے مستحق ہیںنسبتاً اس کے جو وہ اب تک دیکھ چکے ہیں۔ یہ حقیقت دن بدن زیادہ نمایاں ہورہی ہے کہ پارلیمان اپنا کردار ادا نہیں کررہی۔ یہ رجحان ختم ہونا چاہئے۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے مل کر اس دلدل سے نکلنے کی کوشش کریں گی۔

انتخابی عمل: کونسل نے انتخابی عمل نقائص بالخصوص سیاہی کے استعمال اور انگلیوں کے نشانات کی دوبارہ جانچ پڑتال کے حوالے سے ہونے والی بحث کا نوٹس لیا ہے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کئے گئے انتظامات ناکافی تھے اور مختلف جماعتوں کی جانب سے کی جانے والی سازشوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ تاہم گڑھے مردے اکھاڑنے سے پارلیمنٹ کی اہمیت کم ہوجائے گی۔ پارلیمنٹ کے نمائندہ کردار کو کمزور کرنے کے لیے ایسے اقدامات کی اجازت نہ دی جائے۔

کرپشن: کرپشن کے لوگوں کی زندگیوں پر کبھی بھی اتنے منفی اثرات مرتب نہیں ہوئے جتنے اب ہورہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں بہتر نظم ونسق کے قیام پر توجہ دیں جس میں ایک جوابدہ حکومت اور بنیادی انسانی حقوق شامل ہیں۔

پولیوکے خلاف مہم: یہ انتہائی مایوس کن امر ہے کہ جو لوگ پاکستان کے بچوں کو ایک اپاہج مستقبل سے بچانا چاہتے ہیں انہیں اس کے بدلے میں گولیاں ماردی جاتی ہیں۔ فاٹا اور خیبرپختونخوا میں ایک لاکھ سے زائد بچے ویکسین سے محروم ہیں۔ پورے ملک کو پولیو ٹیموں پر ہونے والے حملوں کا مل کر مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔ ہمار ے بچوں کے لیے ایک صحت مند مستقبل کے مخالفین کو بے نقاب کیا جائے اور ایک جامع حکمت عملی بشمول موثر آگہی مہمات کے ذریعے بچوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ ویکسین دینے والوں کو بھی تحفظ فراہم کیا جائے اور ان کی خدمات کی قدر کی جائے۔

زلزلہ زدگان کی امداد: یہ بات اب عیاں ہوچکی ہے کہ بلوچستان میں زلزلے کی شدت جس نے آواران کو تباہ کرکے رکھ دیا تھا۔ اس سے کہیں زیادہ تھی جس کا پہلے اندازہ لگایا گیا تھا اور یہ کہ امداد متاثرین تک نہیں پہنچ رہی۔ متاثرہ علاقوں تک رسائی کی ہر صورت میں ضمانت دی جائے۔

انسانی حقوق کے مدافعین کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی: پاکستان کے تمام علاقوں میں انسانی حقوق کے مدافعین، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی)اورانسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کو درپیش خطرات بدستور قائم ہیں۔ ایچ آر سی پی ایک مرتبہ پھر حکومت کو اس کی ذمہ داری کی یاد دہانی کرانا چاہتاتاکہ انسانی حقوق کے مدافعین کے لیے محفوظ ماحول کو یقینی بنایا جاسکے۔

کشیدگی زدہ علاقے: امن اور سلامتی کی عدم موجودگی کے باعث بلوچستان، فاٹا اور خیبرپختونخوا مشکلات کا شکار ہیں اور لوگوں کی زندگیوں پر اس جنگ کے اثرات کا جائزہ لینے پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی۔ لوگوں کی زبوں حالی کا جائزہ لینے میں اب مزید تاخیر نہ کی جائے۔

میڈیا کا کردار: ایچ آر سی پی میڈیا سے دہشت گردی کے واقعات کی رپورٹنگ کے دوران ضوابط کی پیروی کرنے کا مطالبہ کرتا ہے اور توقع کرتا ہے کہ یہ صرف بریکنگ نیوز جاری کرنے پرہی اکتفا نہیں کرے گابلکہ واقعات کے تعاقب کے ذریعے بھی لوگوں کو معلومات فراہم کرنے کی ذمہ داری پوری کرتا رہے گا۔

اقلیتیں: پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد عروج پر ہے۔ جبکہ ان کی حالت زار پر توجہ نہیں دی جارہی اورغیرمسلموں کے لیے ملک میں جگہ تنگ ہورہی ہے۔ اس ناگفتہ بہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے پیشگی اور ٹھوس اقدامات نظر نہیں آرہے۔اقلیتوں کی تکالیف کو کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

زہرہ یوسف،چیئر پرسن ،ایچ آرسی پی