پسے ہوئے موسمی مزدوروں کے لیے شہریتی دستاویزات کی شرائط وضوابط میں نرمی برتی جائے
کراچی، یکم اکتوبر: شہریتی دستاویزات پر خانہ بدوش مزدوروں کے حق کے موضوع پر آج پالیسی سازی سے متعلق ایک مشاورت میں، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے کراچی اور اس کے گرودونواح میں کام کرنے والے موسمی مزدوروں کو شہریت کے حصول میں درپیش مشکلات سے متعلق ایک تحقیق کے بنیادی نتائج پیش کیے ہیں۔
تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ ایسی برادریوں کی عورتوں کو اکثر یہ حق دینے سے انکار کیا جاتا ہے کیونکہ اُن کے لیے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز (سی این آئی سیز) اہم تصور نہيں کیے جاتے جو کہ حقیقت میں دیگر خودمختاری کا اہم ذریعہ ہیں۔ وہ بچے زيادہ غیرمحفوظ ہوتے ہيں جن کی ولدیت معلوم نہيں: اُن کی پیدائش کے اندراج کا کوئی بندوبست نہیں جس کی وجہ سے وہ تشدد، اسمگلنگ اور چائلڈ لیبر کے نشانے پر رہتے ہیں۔ جن خانہ بدوش مزدوروں کا سروے کیا گیا اُن میں سے بیشتر نے کہا کہ شہریتی دستاویزات نہ رکھنے کی وجہ سے وہ کوویڈ 19 بحران کے دوران امداد کے حصول سے محروم رہے۔
تحقیق نے دیگر اقدامات کے علاوہ، یہ سفارش بھی پیش کی ہے کہ موسمی مزدوروں کی سی این آئی سی تک رسائی آسان بنانے کے لیے موبائل یونٹوں کی پہنچ کو وسعت دی جائے اور لیڈی ہیلتھ ورکرز اور پولیو ورکرز کو بھی اس عمل میں شامل کیا جائے۔ اس کے علاوہ، اگر اس غیرمحفوظ گروپ کو سماجی تحفظ کی اسکیموں سمیت شہریت کے فوائد تک رسائی دینا مقصود ہے تو پھر دستاویز سے متعلق شرائط میں نرمی کرنا ہو گی۔
رکن سندھ اسمبلی اور پی پی پی کی نمائندہ شمیم ممتاز، چئیرپرسن سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی نے کہا کہ اگرچہ خانہ بدوش مزدوروں کے بچے قانونی طور پر شہریت کی دستاویزات کے مستحق ہیں مگر نادرا کی جانب سے ایسی کوئی پالیسی موجود نہيں جو ان کی پیدائش کے اندراج کو یقینی بنا سکے، اور مزید کہا کہ شہریت کی دستاویزات تک رسائی بہتر کرنے کے لیے مقامی حکومت کو اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔
ایک اور رکن سندھ اسمبلی اور ایم کیو ایم کے نمائندے رانا عنصر نے پالیسی سازی کے ذریعے ایسے متبادل انتظامات متعارف کروانے پر زور دیا جس سے خانہ بدوش مزدوروں کو شہریتی دستاویزات کے لیے دراخواست دینے کی اجازت مل سکے چاہے اُن کے پاس مستقل پتا یا خاندان کے اندراج کی دستاویزات نہ ہوں۔
اراکین صوبائی اسمبلی منگلہ شرما، صداقت حسین اور عباس جعفری نے بھی پالیسی مشاورت میں شرکت کی اور اور سول سوسائٹی اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ہمراہ تحقیق کے نتائج پر غوروفکر کیا۔