پریس ریلیز
لاہور
07  –  مئی 2014

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے اُن حالات پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے جن کے باعث عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)نے پاکستان پر بیرونی سفر کے حوالے سے پابندیاں عائد کی ہیں تاکہ دیگر ممالک میں پولیو کے پھیلاﺅ کو روکا جاسکے۔ کمیشن نے اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کے اعلان کے بعد بھی بیماری کے پھیلاﺅ پر قابُو پانے کے لیے حکمت عملی تبدیل نہیں کی گئی۔

بدھ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کمیشن نے کہا، ایچ آر سی پی کو انتہائی افسوس ہے کہ حکومت نے پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات نہیں کئے تھے جس کے نتیجے میں ڈبلیو ایچ او نے بیرون ملک سفر کرنے والے پاکستانیوں پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ اس سے بھی افسوس ناک امر اس قسم کے بے معنی بیانات ہیں جن میں تین ماہ کے اندر پابندی کو ختم کروانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی پریشانی پہلے محسوس ہونی چاہئے تھی۔ پولیو مخالف مہم کا الزام صرف موجودہ حکومت پر ہی عائد نہیں کیا جاسکتا مگر سال کے پہلے چار ماہ میں پولیو کے اطلاع شدہ واقعات میں حیران کن اضافے سے اسلام آباد کو خدشات سے خبردار رہنا چاہئے تھا۔حکام اس حوالے سے پیش رفت کرنے میں ناکام رہے جو ملک میں پولیو وائرس کے پھیلاﺅ کا سبب بنا، وہ پولیو کے عملے کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتے رہے اور پیش قدمی کے سلسلے میں ڈبلیو ایچ او کے ساتھ حکمت عملی مرتب کرنے کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ ان ناکامیوں کے نتیجے میں ملک پابندیوں کی پیشگی تنبیہ بھی نہ لے سکا۔

کسی دوسرے ملک کاوزیرصحت اور پولیو کے خاتمے کے لیے مقر کردہ وزیراعظم کا مرکزی نمائندہ مستعفی ہوجاتے، بصورت دیگر انہیں مستعفی ہونے کے لیے کہا جاتا۔ مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔ ان دونوں عہدیداران کی برطرفی پولیو کے خاتمے میں پاکستان کی مکمل ناکامی کو تسلیم کرنے اور نئی شروعات کی طرف پہلا قدم ہوسکتا ہے۔
دفترخارجہ کے بیانات یا نئے عزم کے دعوے اس مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ غیر منطقی خوف اور شدت پسندی سمیت بیماری کے پھیلاﺅ کی تمام وجوہات پر ہنگامی بنیادوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ اس کا متبادل جس کے متعلق چند ماہ قبل سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا، دنیا سے پاکستان کی علیحدگی کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔

(زہرہ یوسف)
چیئر پرسن ایچ آرسی پی