پیمرا کا حکمنامہ قابل مذمت ہے
لاہور، 2 اکتوبر۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے پیمرا کے حالیہ حکمنامے کو انتہائی تشویشناک قرار دیا ہے جس میں ذرائع ابلاغ کو ‘اشتہاری مجرموں اور مفرور ملزمان’ کے انٹرویوز اور عوامی خطابات کو نشر کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
یہ اقدام نہ صرف شہریوں کے حقِ اظہار کی خلاف ورزی کرتا ہے جو انہیں آئین کی شق 19 کے تحت حاصل ہے، بلکہ عوام کے جاننے کے حق کے بھی منافی ہے۔ ایچ آر سی پی کے خیال میں ایسے حکمنامے ان لوگوں کی طرف سے جابرانہ سنسرشپ کی عکاسی کرتے ہیں جو ایک خاص حالت میں اِس کی وکالت کرتے ہیں جب اِس سے اِنہیں کچھ حاصل ہو رہا ہو اور اِس سے اِس وقت لاتعلق ہو جاتے ہیں جب یہ اِن کے لیے لاحاصل ہو۔
اِس حکمنامے کا حزبِ اختلاف کے رہنما میاں نوازشریف کی تقریر جس میں اُنہوں نے 2018 کے انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھائے، کے فوری بعد صادر ہونا ظاہر کرتا ہے کہ پیمرا ایک غیرجانبدار اور خودمختار انضباطی ادارے کی بجائے سیاسی مفاد کے حصول کا آلہ بن چکا ہے۔ یہ یاد کروانا ضروری ہے کہ پیمرا نے سابق صدر پرویز مشرف کے بیانات کی نشریات پر پابندی عائد نہیں کی تھی حالانکہ وہ بھی اشتہاری مجرم ہیں۔
ایچ آر سی پی پاکستان میں بڑھتی ہوئی سنسرشپ کی تسلسل سے نشاندہی کر رہا ہے، جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ صحافت ملک میں اِتنی کبھی آزآد نہیں رہی جتنی اب آزاد ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ یہ حکمنامہ فوری طور پر واپس لیا جائے اور حکومت سنسرشپ کو اِس فاشسٹ انداز میں اورقوت بخشنے سے گریز کرے۔
چئیرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن کے ایماء پر