کراچی میں سیلاب مختلف دائرہ ہائے اختیار کا نتیجہ ہے
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی جاری کردہ ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں شہر کے مخصوص سیاسی جغرافیے کی نشاندہی کی گئ ہے جہاں بیک وقت مختلف دائرہ ہائے اختیار، جیسے کہ مقامی، صوبائی، وفاقی اور کینٹومنٹ موجود ہیں جن کے مقاصد اکثر ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں۔ کمیشن تجویز کرتا ہے کہ کراچی کی اراضی کا انتظام و انصرام کرنے والے اداروں کو یا تو ایک مرکزی ادارے کو جوابدہ یا پھر خودمختار بنایا جائے۔ جولائی اور اگست میں مون سون بارشوں کے دوران مناسب فیصلہ سازی کی کمی شہر کی تمام سرگرمیوں میں تعطل کی ایک بڑی وجہ ہوسکتی ہے۔
رپورٹ میں کراچی کے لیے ایک بااختیار مقامی حکومت کی ضرورت پرزوردیا گیا ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ بنیادی مسئلہ شہر کے دائرہ اختیار سے متعلق مسائل کو پہلے حل کرنا، مقامی حکومت کو مقامی ٹیکس عائد کرنے کا اختیار دینا اور پھر ان ٹیکسوں سے مقامی ضروریات کو پوراکرنا، اور شہری ترقی کے مرکزیت پر مبنی ماڈل کو تبدیل کرنا ہے تاکہ کراچی کے دور افتادہ علاقوں کو بھی بحث کا حصہ بنایا جاسکے۔
شہری منصوبہ سازوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں، ماہرین تعلیم اور سیلاب سے متاثر ہونے والے شہریوں کے ساتھ وسیع مشاورتوں کی بنیاد پر یہ رپورٹ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ کراچی میں شہری منصوبہ بندی اور پالیسی سازی میں غریبوں کے خلاف تعصب کا عنصر موجود ہے۔
کراچی کے قدرتی نالے یا تو تجاوزات کی وجہ سے بند یا پھر کچرے سے بھرے ہوئے ہیں۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، کے پی ٹی آفیسرزہاؤسنگ سوسائٹی اور نجی تعمیراتی کمپنیوں سمیت کئی عناصرریاستی اداروں کی ملی بھگت سے ان تجاوزات کے ذمہ دار ہیں۔ اس کے باوجود، جب بھی کراچی میں سیلاب آتا ہے تو غریبوں کی قائم کردہ تجاوزات کو ہی سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا جاتا ہے۔
ایچ آر سی پی نے یہ بھی مشاہدہ کیا ہے کہ کراچی کی شہری منصوبہ بندی میں اعلیٰ عدالتوں کی مداخلت بھی ایک مسئلہ ہے کیونکہ اس کا نتیجہ غریبوں کے خلاف انسدادِ تجاوزات مہمات کی صورت میں نکلتا ہے جس سے عدم مساوات اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ آخر میں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پالیسی سازی، منصوبہ بندی اور نفاذ میں غریبوں کے خلاف تعصبات کا خاتمہ ہونا چاہئے۔
چیئرپرسن حنا جیلانی کی ایماء پر