کرتارپور کےرہائشیوں کو مئوثرمعاوضہ دیا جائے

لاہور، 20 مارچ 2019۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے کرتارپورراہداری کی تعمیر کے لیے مقامی لوگوں سے اراضی لینے کے عمل پرتشویش کا اظہارکیا ہے۔ علاقے میں ایک فیکٹ فائندنگ مشن بھیجنے کے بعد، ایچ آرسی پی نے کہا ہے کہ ‘ کرتارپورراہداری ہندوستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہترکرنے میں مددگارثابت ہوگی مگراس کے لیے لوگوں سے ان کے گھر اورذرا‏ئع روزگار نہیں چھننے چاہییں۔ ہمارے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے بتایا ہے کہ اراضی کے حصول کے نتیجے میں کم ازکم چھ گائوں متاثرہوں گے جن میں سے دومکمل طورپرتباہ ہوجائیں گے۔

‘بتایا گیا ہے کہ وزارت مذہبی امورنے کرتارپورگوردوارہ کے اردگرد 1,500 ایکڑزمین لے لی ہے۔ ڈپٹی کمشنرنارووال کے اندازے کے مطابق، مستقبل میں مزید  1,500 ایکڑ اراضی کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ یہ اراضی استعماری دورکے حصول اراضی ایکٹ 1894 کے تحت لی جارہی ہے جس کا جھکائو اراضی کے حصول سے متاثرہونے والے لوگوں کی بجائے ریاست کی طرف ہے۔ متعدد چھوٹے مالکان کا کہنا ہے کہ انہیں نہیں پتا کہ اراضی کے حصول کا منصوبہ کس ترتیب کے ساتھ پایہ تکیمل کو پہنچے گا اورانہیں کوئی معاوضہ ملے گا بھی کہ نہیں ۔ ۔ ۔ نہ صرف ان کی زمینوں کا بلکہ اس عمل میں تباہ ہونے والی فصلوں کا بھی۔ گائوں دودھے جو کہ 1500 سے 2000 خاندانوں کا مسکن ہے، کے باشندوں کو یہ ڈربھی ہے کہ ان کا گائوں مکمل طورپرتباہ کردیا جائے گا، مگروہ اپنی آبادکاری اوربحالی نو کے کسی بھی منصوبے سے لاعلم ہیں۔

‘ کسی بھی قسم کا مبینہ جبری انخلاء ناقابلِ قبول ہے اور حکومت کو چاہئے کہ وہ کوئی بھی اراضی حاصل کرتے وقت مناسب معاوضے کے حق کو مقدم رکھے۔  اسی طرح، معلومات کا حق بھی انتہائی اہم ہے۔ ان میں سے زیادہ تر خاندان کئی نسلوں سے یہاں مقیم ہیں اور یہ واضح نہیں ہے کہ انہیں معاوضے کے لیے کتنے عرصے تک انتظار کرنا پڑے گا۔ اس بات کے پیش نظر کہ ان میں سے زیادہ تر خاندانوں نے تمام زندگی کھیتی باڑی کی ہے اور ان کے پاس وہ ہنر نہیں ہے جو پیشہ تبدیل کرنے کے لیے ضروری ہے، ان لوگوں کے لیے کسی اور جگہ نقل مکانی کرنا اور اپنے گھر دوبارہ تعمیر کرنا انتہائی مشکل کام ہے، اور حصول اراضی ایکٹ 1894 اس مسئلے کو حل کرنے سے قاصرہے۔ علاوہ ازیں، اگرچہ ڈپٹی کمشنر نارووال نے کہا ہے کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ رہائشیوں کو ان کی زمین کا مقررہ قیمت سے زیادہ معاوضہ دیا جائے، تاہم انہوں نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ معاوضوں کی ادائیگی میں تاخیر ہوسکتی ہے۔

‘ایچ آر سی پی حکوت پر زور دیتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ جب تک اس منصوبے سے متاثرہ رہائشیوں کی تسلی کے مطابق ان کی منظم مردم شماری اور تمام ضروری کوائف کی تیاری کا عمل مکمل نہیں ہوجاتا اس وقت تک کسی بھی قسم کی غیر رضاکارانہ آبادکاری عمل میں نہ لائی جائے۔ معلومات کی کمی کے پیش نظر، جیسا کہ بہت سے لوگوں نے شکایت کی ہے، لوگوں کے معاشی، سماجی یا ثقافتی حقوق کی کسی بھی پامالی کا ازالہ کرنے کے لیے شکایات کے ازالے کا شفاف اور مؤثر طریقہ کار تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ کرتار پور میں زرعی زمین کی قیمتوں میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے، ان کے معاوضے اور کاشتکاری کے لیے متبادل زمین کے مطالبے پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہئے۔ حکومت کو ایک طویل المدت اقدام یہ کرنا چاہئے کہ وہ حصول اراضی ایکٹ 1894 میں ترمیم کرنے پر سنجیدگی سے غور کرے تاکہ پاکستان میں زمین کے حصول کے حوالے سے حقوق پر مبنی حکمت عملی تشکیل دی جاسکے۔’

ڈاکٹرمہدی حسن

چیئرپرسن