پریس ریلیز

آرٹیکل 63 الف پر حکومتی ریفرنس آئینی عمل میں ہیر پھیر کروانے کی کوشش ہے

لاہور، 25 مارچ 2022۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کو اس صورتحال پر شدید تشویش ہے جو حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے وزیرِ اعظم کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدمِ اعتماد کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ ایک ایسے عمل  کو متناعہ بنا دیا گیا ہے جو آئین کے دائرے میں ہےاور اس میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے، اور ملک میں آئینی بحران کو جنم دینے کی کوشش میں سیاسی انتشار کی بنیاد رکھی گئی ہے۔

ایچ آر سی پی آئینی و پارلیمانی امور کی انجام دہی کے دوران دستور پسندی اور پارلیمان کی فوقیت پر یقین رکھتا ہے۔ پارلیمانی امور کی انجام دہی اور آئینی عمل کے سازگار اختتام میں رکاوٹ ڈالنا جمہوری عمل کو پٹڑی سے اتارنے اور لوگوں کو ان کے نمائندہ حکومت کے حق سے محروم کرنے کی کوششوں کے مترادف ہے۔ حکومت اور حزبِ اختلاف  دونوں آئین میں درج قانون کی حکمرانی کی پاسداری کرنے کے پابند ہیں۔

نہ تو ایسے معاملات سڑکوں پر لانا جو پارلیمان میں طے ہو سکتے ہیں اور نہ ہی پارلیمان کے دائرہ اختیار میں آنے والے معاملے کے مقدر کے فیصلے کے لیے دیگر اداروں کی مداخلت طلب کرنا عوام کے مفاد میں ہے۔ یہ یقینی طور پر احترام کے اظہار کا کوئی طریقہ نہیں ہے جس کی پارلیمان جمہوری نظام میں مستحق ہوتی ہے۔ آئین کی رو سے جائز پارلیمانی عمل کے لیے ظاہر کی گئی حقارت بذاتِ خود بتا رہی ہے کہ چیف ایگزیگٹو جمہوریت کی بالادستی کے لیے کس حد تک مخلص ہیں۔

حکمران جماعت کے کسی رکن کا قومی اسمبلی میں اپنی جماعتی وابستگی سے انحراف کا نتیجہ آئین کے آرٹیکل 63 الف میں واضح طور پر بیان ہے۔ اِس کے باوجود، حکومت نے عدالتِ عظمیٰ میں ریفرنس دائر کر کے اس آرٹیکل کی وضاحت طلب کی ہے۔ اِس معاملے پر زيادہ تر قانونی ماہرین کے مؤقف کو مدنظر رکھتے ہوئے، ایچ آر سی پی کی رائے ہے کہ آرٹیکل 63 الف شامل کرنے کے پیچھے پارلمیان کا ارادہ یہ تھا کہ انحراف کی صورت میں منحرف رکن پارلیمان اپنی نشست کھو دے گا/گی، نہ کہ وہ زندگی بھر کے لیے نااہل ہو گا/گی، اور نہ ہی انحراف کا کوئی اور نتیجہ نکلے گا جس سے  آئین کے احترام، پارلیمان کی بالادستی اور ایوان کے منتخب اراکین کے طور پر اراکین پارلیمان کے بنیادی حقوق خطرے میں پڑ سکتے ہوں۔ آرٹیکل 63 الف کے تناظر میں، اپنی جماعت سے انحراف کے نتیجے کے حوالے سے کچھ اور اخذ کرنے کا مطلب آئینی شق کو ازسرِنو تحریر کرنے سے کم نہیں ہو گا۔

ایچ آر سی پی آئینی دفعات کی تشریح کے عدالتِ عظمیٰ کے اختیار کو تسلیم کرتا ہے اس کا مکمل احترام کرتا ہے۔ اسے یہ بھی یقین ہے کہ عدالت اس قابل ہے کہ وہ کسی فرد کی عدالتی عمل کے ناجائز استعمال کی کوششوں کو بھانپ سکے اور ایسے کسی بھی اقدام کو شکست دے سکے جس کا مقصد آئینی عمل میں رکاوٹ ڈالے کے لیے عدالت کو سیاسی تنازعات میں ملوث کرنا ہے۔

سول سوسائٹی جمہوری نظام کے لئے ناگزیر ہے. یہ ایسے واقعات پر خاموش تماشائی نہیں رہ سکتی جو بدقسمتی سے طویل مدتی منفی آئینی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ لہذا، ایچ آر ایس سی پی کا فریضہ ہے کہ وہ عوام کی توجہ ابھرتے ہوئے بحران سے جنم لینے والے خدشات کی طرف دلائے جو ملک میں جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور پرامن سیاسی ماحول کے لیے خطرے کا موجب ہیں، یہاں تک کہ تحریک عدمِ اعتماد کی کامیابی حکمران جماعت کے اراکین کے انحراف پر منحصر ہے۔

حنا جیلانی
چئیرپرسن