پریس ریلیز
ایذا رسانی اور تشدد کا خاتمہ یقینی بنایا جائے
لاہور، 26 جون، 2022۔ ایذا رسانی کے متاثرین کے ساتھ یکجہتی کے عالمی دن کے موقع پر، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا ہے کہ ریاست ایذا رسانی کو جرم قرار دے جو کہ 2010 میں ایذا رسانی کے معاہدے کی توثیق کے بعد پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ نہ حالتِ جنگ، نہ سیاسی عدم استحکام اور نہ ہی کسی اعلیِ اتھارٹی کا حکم ایذا رسانی کو جائز قرار دے سکتا ہے جو کہ قانون کی حکمرانی کے بنیادی اصول کے منافی فعل ہے۔
اگرچہ سینٹ نے 2021 میں ایذا رسانی اور حراستی موت (روک تھام اور خاتمہ) بل کی منظوری دی تھی، مگر ایچ آر سی پی کو افسوس ہے کہ قومی اسمبلی نے ابھی تک بل منظور نہیں کیا۔ اس بل کو قانون کا درجہ دینے میں اتنی زیادہ تاخیر ہمیں پیچھے کی طرف لے جائے گی کیونکہ بل نہ صرف ایذا رسانی کی جامع تعریف فراہم کرتا ہے جو کہ ضابطہ فوجداری پاکستان میں دستیاب نہیں بلکہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کو ایذا رسانی کے واقعات کی تحقیقات کا اختیار بھی تفویض کرتا ہے۔
ایچ آر سی پی کا مطالبہ ہے عدالتِ عظمیٰ حراستی مراکز کے خلاف پٹیشن جو کہ 2019 سے زيرِ التوا ہے کی ترجیحی بنیادوں پر سماعت کرے، اور ایذا رسانی کی حوصلہ افزائی کرنے والے قانونی نظاموں کو منسوخ و متروک قرار دیا جائے۔ حراستی ہلاکتوں، حراستی مراکز اور پولیس کی حوالاتوں میں ایذا رسانی کے الزامات عام ہیں، اِس کے باجود، اِس موضوع پر ہونے والی کئی مستند تحقیقوں سے ثابت ہوا ہے کہ، بدقسمتی سے، ایذا رسانی کے بہت سے واقعات نہ صرف رپورٹ نہیں ہوتے بلکہ طبی رپورٹس کے ذریعے انہیں ثابت کرنا مشکل کام ہے۔
ایذا رسانی متاثرین، اِس کی اجازت دینے والے نظام اور بالآخر ریاست کے خاتمے کا سبب بنتی ہے۔ ایچ آر سی پی ایذا رسانی کے متاثرین کے ساتھ کھڑا ہے، اور مطالبہ کرتا ہے کہ ریاست متاثرین کی تلافی کرے اور اس میں ملوث مجرموں کا محاسبہ کرے تاکہ ایذا رسانی کا کلچر ختم ہو اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور شہریوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ استوار ہو۔
حنا جیلانی
چیئرپرسن۔