پریس ریلیز

سال 2023 معاشی نا انصافیوں اور آئین کی خلاف ورزیوں سے متاثر رہا
ایچ آر سی پی کی سالانہ رپورٹ کا اجراء

اسلام آباد، 8 مئی 2024۔ 2023 میں سیاسی تقسیم جاری رہی جس کے نتیجے میں شہری اور سیاسی حقوق پر زیادہ پابندیاں عائد ہوئیں۔ اس کے علاوہ سال کے دوران بڑھتے ہوئے اخراجات کے باعث عام لوگوں کو شدید پریشانی کا سامنا رہا جس کے نتیجے میں ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ اس پس منظر میں، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے آج جاری ہونے والی اپنی سالانہ رپورٹ ‘پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال 2023’ میں، فوری طور پر معاشی انصاف اور شہری حقوق کے تحفظ پر زور دیا ہے۔

رپورٹ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ ملک میں جاری شدید سیاسی تقسیم  9 مئی 2023 کو سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد آتش زنی اور تشدد کے واقعات پر منتج ہوئی۔ اس کے بعد آئین کو واضح طور پر نظرانداز کیا گیا جب غیر منتخب قوتوں نے ملک کے جمہوری ڈھانچے پر اپنی گرفت مضبوط کر لی اور شہری آزادیاں سلب ہو کر اب تک کی کم ترین سطح پر آ گئی۔

9 مئی کے ہنگاموں پر ریاستی ردعمل کا مقصد اختلاف رائے کو دبانا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے فوجی عدالتوں کو عام شہریوں پر مقدمہ چلانے کے لیے دوبارہ متعارف کرایا گیا، جبری گمشدگیوں کا ارتکاب کیا گیا، بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں اور پارٹی کے بہت سے سینئر رہنماؤں کو مبینہ طور پر پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اظہار رائے اور اجتماع کی آزادی کے حق کو سال کے دوران خاصا نقصان پہنچا۔ عام انتخابات بھی مختلف وجوہات کی بناء پر 90 دن کی آئینی حد سے زیادہ تاخیر کا شکار ہوئے۔ انتخابات میں تاخیر کی ایک وجہ یہ بتائی گئی کہ حالیہ مردم شماری کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیوں ضروری تھیں۔

قانون کی حکمرانی واضح طور پر ناقص رہی اور دہشت گردی کے واقعات اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں ہلاکتوں کی تعداد چھ سالوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، جبکہ باجوڑ اور مستونگ میں عسکریت پسندوں کے دو حملوں میں مجموعی طور پر کم از کم 117 افراد ہلاک ہوئے۔ ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ جاری رہا، جبکہ اسٹریٹ کرائم اور ہجوم کی جانب سے ملزمان کی ہلاکتوں کے واقعات میں اضافہ ہوا۔

 گزشتہ سالوں کی طرح ملک بھر میں صحافیوں اور سماجی اور سیاسی کارکنوں کو جبری طور پر لاپتا کیا جاتا رہا۔ تاہم، نوجوان بلوچ خواتین نے قابلِ ستائش طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کے لیے تربت سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا۔

 اگر کمزور طبقات کی بات کی جائے تو مذہبی اقلیتوں کی جانب سے بڑھتے ہوئے خوف کے ماحول کی رپورٹس موصول ہوئیں۔ خاص طور پر پنجاب کے علاقہ جڑانوالہ میں ایک مسیحی شخص کے خلاف توہین مذہب کے الزامات کے بعد ہجوم نے متعدد گرجا گھروں اور گھروں کو نذر آتش کیا اور لوٹ مار کی۔ وفاقی حکومت کے غیر رجسٹرڈ غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کے فیصلے کے بعد خاص طور پر افغان شہریوں کو پولیس نے چھاپے مار کر گرفتار کیا اور انہیں ملک بدری کے مراکز میں منتقل کردیا جہاں انہیں کسی قسم کی قانونی معاونت حاصل نہیں تھی۔

رپورٹ کے اجراء کے موقع پر ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے کہا کہ 2023 کے معاشی بحران نے ‘کروڑوں عام شہریوں کو مایوسی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ جبری گمشدگیوں کے واقعات کی ایک بڑی تعداد پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے جبری گمشدگیوں سے متعلق تحقیقاتی کمیشن کے کردار اور کارکردگی کو ‘شرمناک’ قرار دیا۔

ایچ آر سی پی کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ نے کہا کہ یہ ریاست کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے تعلیم، معاش اور صحت کے حق کو یقینی بنائے۔ انہوں نے ٹریڈ یونین تشکیل دینے کی کم شرح پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب مزدور یونین بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں مسلسل ہراساں کیا اور دھمکایا جاتا ہے۔

وائس چیئرپرسن ایچ آر سی پی اسلام آباد نسرین اظہر نے کہا کہ مذہب کا سیاسی مقاصد کے لیےناجائز استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ پریس کانفرنس کے اختتام پر کو چیئرپرسن منیزے جہانگیر نے کہا کہ ریاست کو تمام سیاسی جماعتوں اور گروپس کے پرامن احتجاج کے حق کا تحفظ کرنا چاہیے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ایک حکومت کے دور میں منظور کیے گئے جابرانہ قوانین انہی لوگوں کے خلاف استعمال ہوں گے جب  وہ حزب اختلاف میں ہوں گے۔

فرح ضیاء
ڈائریکٹر

رپورٹ اس لِنک پر دستیاب ہے۔