پریس ریلیز
سیاسی جماعتوں کو انسانی حقوق کا منشور تیار کرنا چاہیے
لاہور، 27 جنوری 2024۔ اپنے پچھترویں کونسل اجلاس کے اختتام پر، پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غیر مستحکم جمہوریت، انتخابات سے پہلے ہونے والی ساز باز، اور انسانی حقوق کو درپیش سنگين مسائل کو مدِنظر رکھتے ہوئے انسانی حقوق کا منشور تیار کریں۔
ذرائع ابلاغ پر بڑھتی پابندیوں اور آن لائن اجتماعات کو محدود کرنے کی غرض سے انٹرنیٹ سروسز کی معطلی کا بظاہر مقصد ایک خاص سیاسی جماعت کو نشانہ بنانا اور اُسے اپنے رائے دہندگان کی حمایت سے محروم کرنا ہے۔ اعلی عدلیہ کے خلاف ‘مذموم مہم’ پر درجنوں سوشل میڈیا صارفین کو ایف آئی اے کے نوٹسز ( پی ٹی آئی کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کرنے کے ای سی پی کے فیصلے کی عدالتی توثیق کے بعد) عوام کے آزادیِ اظہار کے حق پر بڑھتی یلغار کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انتخابات کے دوران انٹرنیٹ تک محدود رسائی یا مکمل عدم رسائی سے نہ صرف لوگوں کاحق ِمعلومات بلکہ اُن کا پر امن اجتماع کاحق بھی متاثر ہو گا۔
حال ہی میں انتخابات کے التواء کے لیے سینٹ سے کئی قراردادوں کی منظوری، نیز فوج کی پروردہ کمپنی کو ‘اجتماعی کاشت کاری’ کے لیے سندھ میں 52,000 ایکڑ اراضی کی الاٹمنٹ سے فوجی افسرشاہی کے کردار میں بےجا توسیع کے پریشان کُن اشارے مل رہے ہیں۔
یہ حقیقت کہ لگ بھگ ایک کروڑ عورتوں کے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں اور وہ آئندہ انتخابات میں حقِ رائے دہی استعمال نہیں کر سکتیں، ظاہر کرتی ہے کہ ریاست کے خیال میں شہریت کا حصول فرد کی ذمہ داری ہے ناکہ اس کا حق جس کی فراہمی ریاست کا فریضہ ہے۔ اس کے علاوہ، جداگانہ اتنخابی فہرستوں کے ذریعے احمدیہ برادری کو حق رائے دہی سے مسلسل محروم رکھنے کا عمل ناقابلِ دفاع ہے۔ ایچ آر سی پی کا یہ بھی ماننا ہے کہ خواجہ سراء برادری کے سیاسی نمائندوں کے لیے مخصوص نشستیں ہونی چاہییں۔
ایچ آر سی پی کو بلوچ عوام کے ساتھ ریاست کی مسلسل اور دیدہ دانستہ بے رُخی پر بھی مایوسی ہوئی ہے۔ ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے خلاف اسلام آباد کی طرف عورتوں کی زيرقیادت مارچ کے ساتھ برتے گئے سلوک سے اس کا بخوبی اندازہ ہوا ہے جس کا نتیجہ ریاست اور بلوچ عوام میں خطرناک قطع تعلقی کی صورت میں نکلا ہے۔ درحقیقت، تربت اور سکرنڈ (سندھ) میں مبینہ ماورئے عدالت ہلاکتوں کے مجرموں کا ابھی تک محاسبہ نہیں ہو سکا۔ اِسی طرح، گلگت- بلتستان میں مظاہرین کی شکایات سے ریاست کی ارادتا ًلاتعلقی باعث ِتشویش ہے۔ ایچ آر سی کو یہ جان کر بھی بہت تکلیف ہوئی ہے کہ جی۔ ایم۔ سید کی برسی پر ریلیوں کے شرکاء بشمول خواتین پر بغاوت کے مقدمے درج کیے گئے ہیں۔
پاکستان میں 260 لاکھ بچوں کےاسکول نہ جانے کے حالیہ انکشاف نے تعلیمی بحران کی نشاندہی کی ہے جسے ریاست مزید نظرانداز کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ایچ آر سی پی مذہبی اقلیتوں کی نوجوان عورتوں کی جبری تبدیلی مذہب اور سندھ میں کچے کے علاقوں میں امن و امان کی بگڑتی صورت پر بھی شدید فکر مند ہے۔ یہ افسوس ناک اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ صرف گذشتہ ایک مہینے کے دوران خیبر پختونخوا کی کانُوں میں ہونے والے حادثات میں کم از کم سات کان کُن ہلاک ہوئے ہیں۔ ایچ آر سی پی حراستی مراکز اور نجی جیلوں کے مسلسل استعمال کو انسانی حقوق کی تذلیل تصور کرتا ہے۔
اسد بٹ
چئیرپرسن