پریس ریلیز
انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم منصفانہ ٹرائل اور معین قانونی ضابطے کے حق کے منافی ہے
لاہور، 3 نومبر 2024۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے حال ہی میں متعارف کیے گئے انسدادِ دہشت گردی (ترمیمی) بل 2024 پر تشویش کا اظہار کیا ہے، جس کے تحت ریاست کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ محض ’قابلِ اعتبار معلومات‘ یا ’معقول شک‘ کی بنیاد پر ،بغیر عدالتی نگرانی کے،لوگوں کو قومی سلامتی یا امن عامہ کے لئے خطرہ سمجھتے ہوئے تین ماہ تک ’تحقیقات‘ کے لیے حراست میں رکھ سکتی ہے۔
ایچ آر سی پی حالیہ بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور قیمتی جانوں کے بڑے پیمانے پر ضیاع کے پیش نظر ملک کی بگڑتی ہوئی سلامتی اور امن و امان کی صورتحال سے نمٹنے کی فوری ضرورت کو تسلیم کرتا ہے۔ تاہم، امتناعی حراست مسئلے کا حل نہیں ہے کیونکہ ایسے اختیارات کے غلط استعمال کا خدشہ رہتا ہے۔
بدقسمتی سے، ریاست کا ایسے قوانین کے منصفانہ، شفاف اور مناسب استعمال کا ریکارڈ مایوس کن رہا ہے۔ یہ بات ماحولیاتی انصاف کے کارکن بابا جان اور سابق قانون ساز علی وزیر کی طویل حراست سے ظاہر ہوتی ہے، جن پر دہشت گردی کو ہوا دینے کے بے بنیاد الزامات لگائے گئے، اور حالیہ دنوں میں حقوق کی کارکن ماہرنگ بلوچ کا فورتھ شیڈول میں شامل ہونا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ موجودہ سیاسی حالات میں یہ خدشہ بھی ہے کہ امتناعی حراست کو سیاسی حریفوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔
خاص تشویش کی بات یہ ہے کہ بل مسلح افواج کو محض شک کی بنیاد پر لوگوں کو بغیر عدالتی نگرانی کے حراست میں رکھنے کا اختیار بھی دیتا ہے۔ یہ نہ صرف جبری گمشدگیوں اور حراستی مراکز کے استعمال کو قانونی حیثیت دینے کے مترادف ہے بلکہ یہ دستور کے آرٹیکل 10 اور 10 اے کے تحت منصفانہ سماعت اور معین قانونی ضابطے کے تحت سلوک کے حق کے بھی منافی ہے۔
مزید برآں، اس طرح کی حراست کی وجوہات غیر واضح اور جانبدارانہ ہیں اور شہری و سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کے آرٹیکل 4، پیراگراف 1 کے تحت حقوق کے معطل کیے جانے کی شرط کو پورا نہیں کرتیں۔ اس لحاظ سے، یہ ترمیم عارضی یا مخصوص حالات کے بجائے غیر محدود اختیارات فراہم کرتی ہے۔
ایچ آر سی پی حکومت سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ اس بل کو واپس لیا جائے اور ایسی قانون سازی اور لائحہ عمل اپنایا جائے جس کو شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے لئے غلط استعمال نہ کیا جا سکے۔
اسد اقبال بٹ
چیئرپرسن