پریس ریلیز

ایچ آر سی پی نے اقلیتوں کے حقوق کے لیے قانونی قومی کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ ایک بار پھر دہرایا ہے

اسلام آباد، 11 جنوری 2024۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والی قومی گول میز مشاورت نے مطالبہ کیا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ جیلانی فیصلہ 2014 کی روشنی میں اقلیتوں کے حقوق کے لیے ایک قانونی قومی کمیشن قائم کیا جائے۔

ایچ آر سی پی کی ڈائریکٹر فرح ضیاء نے کہا کہ 2020 میں اقلیتوں کے حقوق کے لیے قائم ہونے والا کمیشن اقلیتوں کے مطالبات پورا کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ اُنہوں نے پیرس پرِنسپلز کی مطابقت میں ایک خودمختار کمیشن کی تشکیل کی ضرورت پر زور دیا۔

اقلیتی برادریوں، سیاسی جماعتوں، سرکاری محکموں، وزارت برائے انسانی حقوق، قومی کمیشن برائے انسانی حقوق اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں نے اِس طرح کے کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے کئی سفارشات پیش کیں۔ ہندو برادری سے پریتم داس راٹھی نے کہا کہ کمشن کے اراکین کی اکثریت اقلیتوں سے ہونی چاہیے۔ اِس کے علاوہ، کمیشن اقلیتوں کے حقوق کی صورتِ حال پر وزیرِ اعظم کو سہ ماہی بنیادوں پر رپورٹ بھیجے۔ بہائی برادری سے پروفیسر مہر داد کا کہنا تھا کہ کمیشن کا کردار تمام صوبوں اور علاقوں تک پھیلا ہونا چاہیے۔

مسیحی برادری کے نمائندے فادر سرفراز سائمن نے نشاندہی کی کہ درس گاہوں کا نصاب بہتر کیا جائے تاکہ اس سے نفرت انگیز مواد ختم ہو اور پاکستان کے قیام میں اقلیتوں کا کردار نظر آئے۔ جماعتِ احمدیہ کے محمود افتخار نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ 2023 میں اپنی کئی عبادت گاہوں کی بے حرمتی جھیلنے والے احمدیوں جیسے غیر محفوظ طبقوں کے حقوق بھی کمیشن کا حصہ ہونے چاہییں۔

انسانی حقوق کے کارکن پیٹر جیکب کا کہنا تھا کہ جیلانی فیصلے نے ہمارے اداروں میں اکثریت کے تسلط جیسے مسئلے کا حل پیش کیا ہے۔ انسانی حقوق کے قومی اداروں کا کام انتظامیہ میں توازن کی فضا برقرار رکھنا ہے ناکہ اس کے حریف کا کردار ادا کرنا۔ اُنہوں نے سیاسی جماعتوں سے بھی اپیل کی کہ وہ جیلانی فیصلے کے نفاذ کو اپنے انتخابی دساتیر کا حصہ بنائیں۔

جے یو آئی-ایف کی نمائندہ آسیہ ناصر نے کہا کہ اقلیتوں کے لیے قومی کمیشن عوامی امنگوں کا ترجمان ہو، اِس کا باقاعدہ الگ بجٹ اور واضح اختیار ہو۔ سڈل کمیشن کے نمائندے ڈاکٹر سڈل نے معاشرتی رویوں کی تبدیلی پر زور دیا جس میں اضافہ کرتے ہوئے ایچ آر سی پی کونسل کے رُکن فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اس طرح کے کمیشن کی تشکیل کے جائز مطالبے کی قبولیت سے انکار کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اکثریت کے تعصب سے نمٹنا انتہائی ضروری ہے۔

ایچ آر سی پی کی کونسل رُکن حنا جیلانی نے تجویز پیش کی کہ کمیشن کا مسودہ قانون وسیع تر مشاورت کے بعد تیار کیا جائے اور احمدی برادری کے نمائندوں کو کمیشن کا حصہ بنایا جائے تاکہ وہ اپنے حقوق کی حفاظت کر سکیں۔ عدالتِ عظمیٰ کو جیلانی فیصلے کے نفاذ کے لیے منصوبہ سازی بھی کرنی چاہیے اور ترقی پسند قانون سازی کی راہ میں حائل ہجوم کی تنگ نظر سوچ کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی۔

بحث کا اختتام کرتے ہوئے، ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق کے لیے قومی کمیشن اپنی ساخت، کردار، اختیار اور وسائل کے حوالے سے داخلی جوابدہی کے اصولوں اور پیرس پرِنسپلز پر پورا اترنا چاہیے۔ گول میز مشاورت کی نظامت کی ذمہ داری نبھانے والے ایچ آر سی پی کے عہدیدار سلمان فرخ نے بتایا کہ جیلانی فیصلے کے نفاذ کے لیے آگہی مہم شروع کی گئی ہے۔

اسد اقبال بٹ
چئیرپرسن