پریس ریلیز
ایچ آر سی پی نے فوجی عدالتوں پر قومی اسمبلی کی قرارداد کی مخالفت کی ہے
لاہور، 13 جون۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے 9 مئی کے تشدد میں ملوث شرپسندوں کو پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت ٹرائل اور سزاؤں کی قومی اسمبلی کی قرارداد کی مخالفت کی ہے۔ قرارداد میں ‘یہاں تک کہ ایک دن کی تاخیر کے بغیر’ والے الفاظ خاص طور پر پریشان کن ہیں کیونکہ ان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت سیاسی مصلحت کی قربان گاہ پر شفاف ٹرائل، شفافیت اور باضابطہ قانونی کارروائی کے حق کو قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔
ایچ آر سی پی کا ماننا ہے کہ ان تمام لوگوں کا سخت محاسبہ کیا جانا چاہیے جنہوں نے پرامن اجتماع کی آزادی کے حق کو غلط استعمال کیا اور آتش زنی، توڑ پھوڑ اور تباہی میں ملوث رہے۔ مگر ساتھ ہی احتساب کو من مانے طور پر پارٹی کے نچلے درجے کے کارکنوں اور تماشائیوں پر لاگو نہ کیا جائے۔ اس کے بجائے، یہ کارروائی سویلین قوانین کے تحت اور عام عدالتوں میں ہونی چاہیے جہاں فوجی عدالتوں کے مقابلے میں منصفانہ ٹرائل کے معیارات کو برقرار رکھنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
مزید برآں، قرارداد کے دعوے کے برعکس، پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت مقدمہ چلانے والے شہریوں کو سویلین عدالتوں میں اپیل کا حق حاصل نہیں ہے۔ ان عدالتوں کا کردار ایسے معاملات میں عدالتی نظرثانی کے محدود اختیارات کے استعمال تک محدود ہے۔
ایچ آر سی پی نے مختلف حکومتوں کو بار بار خبردار کیا ہے کہ مسئلے کے فوری حل کے طور پر فوجی عدالتوں کا دفاع کرنا نہ صرف امن و امان کی حالیہ خرابی کی ذمہ داری سے کنارہ کشی کرنے بلکہ عام طور پر سویلین بالادستی کو بھی نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔
حنا جیلانی
چئیرپرسن