پریس ریلیز
ایچ آر سی پی نے 2024 میں انسانی حقوق کی راہ میں حائل مشکلات کی نشاندہی کی ہے
اسلام آباد، یکم جنوری 2024۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے نئے سال کی آمد پر ملک میں انسانی حقوق کی مجموعی طور پر بگڑتی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار اور اِس پر فوری توجہ دینے کا مطالبہ کیا۔
سب سے اہم مسئلہ انتخابی عمل میں کُھلے عام ساز باز کا ہے جس میں ایک سیاسی جماعت کےمنظم طریقے سےحصّے بخرے کیے جا رہے ہیں۔ اگرچہ ایچ آر سی پی کسی بھی فریق کے تشدد کو جائز قرار نہیں دیتا مگر ریاست کا ردِعمل اِنتہائی غیرمناسب اور غیرقانونی ہے۔ اس حوالے سے جانا پہچانا طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے۔ پارٹی کے کارکنوں اور حامیوں کی گرفتاری، اُن پر لگائے گئے مبہم الزامات، پارٹی کارکنان کے پُرامن اجتماع کے حق پر پابندیاں، جبری گمشدگیاں، پارٹی کے رہنماؤں پر پارٹی چھوڑنے یا سیاست سے ہی کنارہ کشی کرنے کے دباؤ کے واضح آثار، اور ابھی حال ہی میں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی بڑے پیمانے پر نامنظوری اس طریقہ کار کا حصّہ ہیں۔ کئی دیگر جماعتوں کو بھی کسی نہ کسی طرح اِس سے ملتے جلتے ہتھکنڈوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اِس وقت، یہ دِکھانے کے لیے بہت کم شواہد ہیں کہ اگلے انتخابات آزاد، شفاف اور معتبر ہوں گے۔
گذشتہ برس ریاستی و غیر ریاستی عناصر کی جانب سے غیر محفوظ طبقوں کے حقوق پر نئے سرے سے حملے ہوئے ۔ مسیحوں اور احمدیوں کی عبادت گاہوں کی بہیمانہ تباہی دیکھی گئی۔ اگست 2023 میں جڑانوالہ میں ایک ہی دن میں 30 سے زائد گرجا گھروں کو شدید نقصان پہنچا، اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف توہینِ مذہب کے قوانین کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باعث اِن برادریوں کی مذہبی آزادی کا حق تو کجا حقِ زندگی اور معاش بھی محفوظ نہیں رہا۔ سانحہ جڑانوالہ کی عدالتی تحقیقات کروانے کے مسیحی برادری کے جائز مطالبے کا احترام کیا جائے اور تمام متاثرین کو مناسب معاوضہ دیا جائے۔ ایچ آر سی پی مذہبی اقلیتوں کے حقوق سے متعلق عدالتِ عظمٰی کے 2014 کے فیصلے کے نفاذ کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔
غیر محفوظ افغان پناہ گزینوں اور پناہ کے طلب گاروں کو ،عالمی رواجی قانون کے برخلاف اور اُن کے اپنے وطن میں اُن کی سلامتی کے امکانات کا خیال رکھے بغیر ، بے دخل کرنے سے بہت سی عورتیں، بچے، بوڑھے اور معذوریوں سے متاثر افغان شہریوں کی زندگی داؤ پر لگ گئی ہے ۔
امن و امان کی صورتِ حال، خاص طور پر خیبر پختونخوا میں، شدید تشویش کا باعث ہے۔ شدت پسندی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اِس مقصد کے لیے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنا کردار ادا کرنے دے جبکہ حکومت یقینی بنائے کہ پولیس کے پاس شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے ضروری تربیت اور وسائل ہوں ۔ ریاست گذشتہ برس کی طرح مشکوک خفیہ مذاکرات کے ذریعے شدت پسندوں کو پھر سے مضبوط ہونے کا موقع فراہم نہ کرے۔ اس کے علاوہ، سابق فاٹا کا انضمام اور اسے مرکزی دھارے میں لانا ایک بڑی کامیابی ہے ۔ اِس اقدام کو کسی صورت واپس نہ لیا جائے۔
آخر میں، اختلافِ رائے پر ریاستی پابندیوں، چاہے آزادیِ رائے، اظہار یا اجتماع پر ہوں، نے ملک میں شہری آزادیوں کو مزید محدود کیا ہے وہ بھی ایسے وقت پر جب اُن کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خاتمے کا مطالبہ کرنے والی بلوچ خواتین مظاہرین کے خلاف حالیہ کریک ڈاؤن ریاست پر ایک سیاہ دھبہ ہے۔ ایسے جابرانہ ہتھکنڈوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایچ آر سی پی نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاج کرنے والے بلوچ عورتوں کے ساتھ اظہار ِیک جہتی اور مطالبہ کرتا ہے کہ ریاست تمام لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کرے۔
ایچ آر سی پی پُر زور مطالبہ کرتا ہے کہ مسائل کو منتخب حکومت ترجیحی بنیادوں پر حل کرے جو شفاف طریقے سے اقتدار میں آئے، بیرونی دباؤ سے آزاد رہ کر کام کرے، اور تمام شہریوں اور باشندوں کے حقوق کے تحفظ و احترام کے لیے پُر عزم رہے۔
اسد اقبال بٹ
چئیر پرسن